رسائی کے لنکس

ایران کی نئی شیعہ فورس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کا خدشہ


ایران فوج کے اہلکار پریڈ میں شریک ہیں (فائل فوٹو)
ایران فوج کے اہلکار پریڈ میں شریک ہیں (فائل فوٹو)

مبصرین کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ فوج تشکیل دے کر تہران خطے میں اپنے پڑوسیوں خصوصاً سنی اکثریتی ممالک، جیسے کہ سعودی عرب کے ساتھ جنگ کا اعلان کر رہا ہے۔

ایران کی حکومت نے "یونائیٹڈ شیعہ لبریشن آرمی" کے نام سے ایک نئی فورس تشکیل دی ہے جس سے مبصرین کے بقول ایسے اشارے ملتے ہیں کہ تہران مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں اپنے سیاسی و عسکری کردار کو فرقہ وارانہ خطوط پر بھی بڑھانا چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے مہدی جدینہ اور نور زائد کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ایگزیٹر کے اسٹریٹیجی اینڈ سکیورٹی انسٹیٹیوٹ کے محقق طلحہ عبدالرزاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "نئی فورس کے نام میں شیعہ فرقے کا صیغہ استعمال کرنے سے خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ترغیب ملی گی، ایران خود کو علاقائی حتیٰ کہ سامراجی قوت کے طور پر پیش کرنے پر زور دے رہا ہے۔"

گزشتہ جمعرات کو اس نئی فورس کے قیام کا اعلان شام میں ایرانی فورسز کی قیادت کرنے والے سابق کمانڈر نے کیا۔ اس میں اکثریت میں خطے کے غیر ایرانی شیعہ مسلمانوں کی بھرتی کی جائے گی اور یہ فورس عرب ممالک میں لڑائیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

نیوز ایجنسی "مشرق" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک رہنما محمد علی فلکی کا کہنا تھا کہ نئی فورس کی توجہ تین محاذوں (یمن، شام اور عراق) پر ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاسداران انقلاب پہلے ہی شام میں شیعہ اکثریتی فورسز کی قیادت کر رہی ہے جن میں پاکستان، عراق، شام اور لبنان تعلق رکھنے والے جنجگو ہیں۔

فلکی نے کہا کہ "اس فوج سے تعلق رکھنے والی فورسز صرف ایرانی نہیں ہیں۔ ہر وہ جگہ جہاں لڑائی ہو گی، ہم مقامی لوگوں کو بھرتی کریں گے۔"

مبصرین کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ فوج تشکیل دے کر تہران خطے میں اپنے پڑوسیوں خصوصاً سنی اکثریتی ممالک، جیسے کہ سعودی عرب کے ساتھ جنگ کا اعلان کر رہا ہے۔

عبدالرزاق نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ "یہ ایک اعلان ہے کہ وہ خطے میں فرقہ وارانہ تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کو جاری رکھنے کے لیے غیر ملکی جنگجوؤں کو استعمال کریں گے۔"

سعودی عرب کی زیر قیادت خلیج تعاون کونسل کے ممالک ایران پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ خطے میں فرقہ وارانہ تشدد اور تنازعات کو ہوا دے رہا ہے جس میں یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کی حمایت بھی شامل ہے۔

تاہم ایران کی نئی فورس کی تشکیل پر تاحال سعودی عرب کی طرف سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

واشنگٹن میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر رسول نفیسی کہتے ہیں کہ "تہران اور ریاض کئی ماہ تک سینگ پھنسا کر کھڑے رہے ہیں اور اب یہ ایران کی طرف سے طاقت کا ایک اظہار ہے، سعودیوں کے لیے ایک اشارہ ہے کہ ایران لڑائی میں اپنے تمام ممکنہ وسائل استعمال کر سکتا ہے۔"

یمن کے علاوہ ایران، شام کی جنگ میں بھی اپنے لبنانی اتحادی "حزب اللہ" گروپ کے ساتھ لڑائی میں شامل رہا ہے۔

مبینہ طور پر ایران نے اپنے ہاں مقیم ہزاروں افغانوں کے علاوہ بہت سے پاکستانی شہریوں کو بھی شام کے مختلف محاذوں پر لڑائی کے لیے بھرتی کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG