ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتیں تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک طویل المدت معاہدے پر مذاکرات کے لیے منگل کے بعد بھی اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔
یہ بات یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے صحافیوں سے گفتگو میں بتائی ہے۔
"ہم آئندہ دو روز کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حتمی تاریخ میں توسیع کر رہے ہیں۔"
توقع کی جا رہی تھی کہ بات چیت کا یہ سلسلہ مزید طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ قبل ازیں حتمی معاہدے کے لیے 30 جون کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن مذاکرات میں کوئی قابل عمل پیش رفت نہ ہونے پر اسے سات جولائی تک بڑھا دیا گیا تھا۔
ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی) کے وفود پیر کو دیر گئے شروع ہو کر منگل کی علی الصبح تک جاری رہنے والے ایک سیشن میں شریک ہوئے۔
مذاکرات کے نتیجے میں اپریل کے اواخر میں فریقین حتمی معاہدے کے خدوخال پر متفق ہوئے تھے لیکن یہ معاہدہ اب تک کوئی متفقہ حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے۔
ایران کے ایک عہدیدار نے پیر کو کہا تھا کہ "ہم کوئی ڈیڈ لائن نہیں دیکھ رہے، ہمیں معلوم ہے کہ امریکہ کی کچھ مخصوص تجاویز ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر کوئی اس سے اتفاق کرے۔"
اگر کوئی حتمی معاہدہ جمعرات تک طے ہو جاتا ہے تو امریکی کانگرس کے پاس اس کا جائزہ لے کر اس بارے میں رائے شماری کے لیے 30 دن کا وقت ہوگا کہ قانون سازوں کی طرف سے تہران پر عائد کردہ بعض پابندیوں کو ہٹایا جائے یا نہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی "قوی امکان" ہے کہ مذاکرات منگل سے بھی آگے تک جاری رہ سکیں۔
ایران اور فریقین میں اس بابت اختلاف چلا آرہا ہے کہ معاہدے کی صورت میں اس پر عائد پابندیوں کو کس رفتار سے ختم کیا جائے گا۔
لیکن پیر کو اس وقت ایک نیا معاملہ سامنے آیا جب ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ اسلحہ کی خریدوفروخت پر اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندی ہٹا لی جائے۔ مغربی ملکوں کے حکام اس ایرانی خواہش کی مخالفت کرتے ہیں۔