اسلام آباد —
ایران اور پاکستان نے دوطرفہ ’’قریبی، دوستانہ تعلقات‘‘ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کو وسعت دینے کے لیے اعلٰی سطحی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ایران کے معاون وزیرِ خارجہ ابراہیم رحیم پور نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور اُمور خارجہ سرتاج عزیز سے منگل کو اسلام آباد میں ملاقات کی۔
وزارتِ خارجہ سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرانی عہدیدار نے کہا کہ صدر حسن روحانی کی قیادت میں ایران کی نئی حکومت خطے کے تمام ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہاں ہے۔
’’ایران کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو اہم مقام حاصل ہے اور ایران مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ایرانی اور پاکستانی عہدیداروں نے خصوصاً اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلٰی سطحی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
اُنھوں نے دوطرفہ اقتصادی تعلقات کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینے کے لیے وزراء کی سطح پر قائم مشترکہ کمیشن کا اجلاس مستقبل قریب میں منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔
’’طرفین نے سلامتی سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کے لیے مروجہ طریقہ کار کے مطابق مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔‘‘
سرتاج عزیز نے ایرانی عہدیدار کو بتایا کہ 24 سے 26 نومبر کے دوران تہران میں ہونے جا رہے اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وہ ایرانی وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات کے منتظر ہیں۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات عمومی طور پر مستحکم رہے ہیں، مگر دونوں ممالک کے درمیان سرحد سے ملحقہ علاقے میں تہران مخالف مسلح گروہوں کی کارروائیوں کے تناظر میں بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی بھی کی جاتی رہی ہے۔
ہمسایہ مسلم ممالک کے درمیان موجودہ شراکت داری میں بظاہر سب سے اہم منصوبہ مجوزہ گیس پائپ لائن کا ہے۔ ایران اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا بیشتر کام مکمل کر چکا ہے، لیکن پاکستانی سر زمین پر تاحال یہ کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اس مجوزہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیوں کہ یہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران میں کمی کے لیے ناگزیر ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد میں مسلسل تعطل کی ایک بڑی وجہ مالی وسائل کی عدم دستیابی ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کے پاس اس منصوبے سے بہتر ذرائع موجود ہیں جن میں سر فہرست افغانستان کے راستے ترکمانستان سے قدرتی گیس کی درآمد کے لیے سہ فریقی پائن لائن کا مجوزہ منصوبہ ہے۔
ایران کے معاون وزیرِ خارجہ ابراہیم رحیم پور نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور اُمور خارجہ سرتاج عزیز سے منگل کو اسلام آباد میں ملاقات کی۔
وزارتِ خارجہ سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرانی عہدیدار نے کہا کہ صدر حسن روحانی کی قیادت میں ایران کی نئی حکومت خطے کے تمام ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہاں ہے۔
’’ایران کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو اہم مقام حاصل ہے اور ایران مختلف شعبوں میں پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ایرانی اور پاکستانی عہدیداروں نے خصوصاً اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلٰی سطحی روابط بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
اُنھوں نے دوطرفہ اقتصادی تعلقات کا بحیثیت مجموعی جائزہ لینے کے لیے وزراء کی سطح پر قائم مشترکہ کمیشن کا اجلاس مستقبل قریب میں منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔
’’طرفین نے سلامتی سے متعلق اُمور پر تبادلہ خیال کے لیے مروجہ طریقہ کار کے مطابق مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔‘‘
سرتاج عزیز نے ایرانی عہدیدار کو بتایا کہ 24 سے 26 نومبر کے دوران تہران میں ہونے جا رہے اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وہ ایرانی وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات کے منتظر ہیں۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات عمومی طور پر مستحکم رہے ہیں، مگر دونوں ممالک کے درمیان سرحد سے ملحقہ علاقے میں تہران مخالف مسلح گروہوں کی کارروائیوں کے تناظر میں بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی بھی کی جاتی رہی ہے۔
ہمسایہ مسلم ممالک کے درمیان موجودہ شراکت داری میں بظاہر سب سے اہم منصوبہ مجوزہ گیس پائپ لائن کا ہے۔ ایران اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا بیشتر کام مکمل کر چکا ہے، لیکن پاکستانی سر زمین پر تاحال یہ کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اس مجوزہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیوں کہ یہ ملک کو درپیش توانائی کے بحران میں کمی کے لیے ناگزیر ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق اس منصوبے پر عمل درآمد میں مسلسل تعطل کی ایک بڑی وجہ مالی وسائل کی عدم دستیابی ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کے پاس اس منصوبے سے بہتر ذرائع موجود ہیں جن میں سر فہرست افغانستان کے راستے ترکمانستان سے قدرتی گیس کی درآمد کے لیے سہ فریقی پائن لائن کا مجوزہ منصوبہ ہے۔