پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما، تاج حیدر کا کہنا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن ایک اہم پراجیکٹ ہے جو ایک عرصے سے عمل درآمد کا منتظر ہے۔وہ صدر آصف علی زرداری کے دورہٴ ایران کےتناظر میں ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کررہے تھے۔
تاج حیدر کا کہنا تھا کہ پہلے یہ منصوبہ پاکستان، ایران اور بھارت کا ایک مشترکہ منصوبہ تھا، اور ہندوستان کو گیس کی جو ضروریات ہیں ، خاص طور پر گجرات اور مہاراشٹر کے صوبے میں بجلی بنانے کے لیے، یہ گیس وہاں تک جانی تھی۔ لیکن بھارت نے امریکہ کے ساتھ سول نیوکلیئر انرجی معاہدہ کرکے، اِس پراجیکٹ کو تعطل کا شکار کردیا۔
ترکمانستان، افغانستان، پاکستان گیس پائپ لائن (ٹیپی) منصوبے کے بارے میں ایک سوال پر، سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق جنرل منیجر، بریگیڈیئر آغا گل کا کہنا تھا کہ ایران پائپ لائن اور ترکمان گیس پراجیکٹ دونوں کی پاکستان کو ضرورت ہے، اِس لیے کہ آئندہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کی توانائی کی ضروریات بہت بڑھ چکی ہوں گی۔
لیکن، اُن کے بقول، جِس فوری اقدام کی ضرورت ہے وہ ایران کی گیس پائپ لائن کا معاملہ ہے، ’کیونکہ اگر آج حکومتِ پاکستان اِس پر کوئی سیاسی فیصلہ دے دے، تو بھی اِس پراجیکٹ کو مکمل ہوتے ہوتے چار سے پانچ سال لگ جائیں گے۔‘
’ٹیپی‘ کے بارے میں بریگیڈیئر آغا گل کا کہنا تھا کہ اِس کے راستے میں افغانستان پڑتا ہے، جِس کے بارے میں نہیں پتا کہ کب جاکر وہاں استحکام آئے گا۔ خود اگر نیٹو اور اِساف (بین الاقوامی اتحادی فوجوں) کے حوالے سے بات کی جائے، تو وہ بھی 2015ء کی بات کر رہے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ’ٹیپی اگر بیک برنر پر چلا جائےاور اُس پر کاغذی کارروائی ہوتی رہے لیکن وہ دور دور تک ہوتا نظر نہیں آتا۔‘
اُنھوں نے بتایا کہ ایران کی پائپ لائن 200کلومیٹر تک بچھ چکی ہے، اور ایران کا کہنا ہے کہ اگر عمل درآمد کا معاہدہ ہوجاتا ہے وہ ایک سال کے اندر اندر گیس شروع کردے گا۔ ’لیکن، ہم لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی تک ہمارا’ میکانزم‘ میدان پر موجود نہیں ہے‘۔
افغانستان سے امریکی انخلا پر ایک سوال کے جواب میں نامور تجزیہ نگار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ عملی طور پر بھی پاکستان کو اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستی کرنی چاہیئے کیونکہ آپس میں بڑے مسائل ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے بھارت کا خصوصی ذکر کیا، جسے ٹھیک کرنے میں، اُن کے بقول، کافی وقت لگے گا۔ پھر یہ کہ جب تک افغانستان میں امن و سکون فوری طور پر میسر نہیں ہوتا تو ایران ہی ایک ایسا ہمسایہ ہے جِس کے تعلقات میں کوئی مسئلہ حائل نہیں ہے،’ اور سرحد کے دونوں طرف سکون ہے‘۔
ڈاکٹر رضوی کے مطابق، ایران و پاکستان کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کے’ بڑے امکانات موجود ہیں‘، اور یہ کہ، کئی اعتبار سے دونوں ممالک ’ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں‘۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: