ایران کی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔
عدالتی ترجمان غلام حسین محسنی نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ ان میں کوئی شخص سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں نہیں مارا گیا کیوں کہ اُن کے بقول اہلکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا اسلحہ استعمال نا کریں۔
غلام حسین محسنی نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں تاہم اُنھوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ مظاہروں کے دوران 25 افراد کی ہلاکت کیسے ہوئی۔
ایران کے ایک نیم سرکاری خبر رساں ادارے نے تہران کے استغاثہ کے حوالے سے کہا کہ مظاہروں کے دوران جن 400 افراد کو حراست میں لیا گیا، اُنھیں رہا کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایران کے اصلاح پسند رکن پارلیمنٹ محمود صادقی نے کہا تھا کہ مظاہروں کے دوران لگ بھگ 3700 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جب محمود صادقی کا کہنا تھا کہ دوران حراست ایک شخص نے خودکشی بھی کر لی تھی۔
ایران میں معاشی مسائل اور اس جڑی مشکلات پر تین ہفتے قبل ایران میں مظاہرے شروع ہوئے تھے جب کہ بعد میں ان کا دائرہ بڑھ گیا اور وہ حکومت مخالف احتجاج میں بدل گئے۔
احتجاج کے دوران مشتعل مظاہرین کی طرف سے حکومت اور پولیس کی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا۔
ایران میں عہدیداروں کی طرف سے الزام لگایا تھا کہ اُن کے ملک میں بدامنی میں مبینہ طور پر امریکہ، برطانیہ اور دیگر بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔
امریکہ کی طرف سے ایران کے اس دعوے کو مسترد کیا گیا تھا جب کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے ’سی آئی اے‘ کے سربراہ مائیک پومپیو نے ’فاکس نیوز‘ سے گفتگو میں کہا تھا کہ یہ الزام درست نہیں امریکہ احتجاج کی پشت پناہی کر رہا ہے بلکہ مظاہروں کی وجہ ایران کے داخلی مسائل ہیں۔