رسائی کے لنکس

ایران: حکومت کے ناقد انسانی حقوق کے کارکن اور فٹ بال کے کھلاڑی ضمانت پر رہا


ایرانی قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی، وریا غفوری دبئی کے المکتوم اسٹیڈیم میں ایشین کپ فٹ بال میچ کھیلتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)
ایرانی قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی، وریا غفوری دبئی کے المکتوم اسٹیڈیم میں ایشین کپ فٹ بال میچ کھیلتے ہوئے۔ (فائل فوٹو)

ایران کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے انسانی حقوق کے معروف کارکن حسین رونقی اور قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی وریا غفوری کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

یہ دونوں افراد ان درجنوں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان، صحافیوں اور وکلا میں شامل ہیں جنہیں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

بائیس سالہ مہساامینی کا تعلق ایران کے کرد علاقے سے تھا جو 16 ستمبر کو ملک کی خودساختہ اخلاقیات کی پولیس کی تحویل کے دوران ہلاک ہو گئی تھیں۔ انہیں لباس کے سخت ضابطے کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا ۔

ایران کے خبر رساں ادارے 'فارس' نے ہفتے کو سوشل میڈیا اکاونٹس پر کہا ہے کہ ''وریا غفوری اور حسین رونقی کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔

غفوری، جو کہ کرد ہیں، انہیں جمعرات کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ان چار سابق ایرانی فٹ بال کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہیں احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے یا ان کی حمایت کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا ۔

دیگر تین کھلاڑی جن کو حراست میں لیا گیا تھا اب میں حسین مہینی، پرویز برومند اور حامد رضا علی اصغری شامل ہیں۔

سینتیس سالہ رونقی 'وال اسٹریٹ جرنل' کے لیے مضامین تحریر کرتے ہیں۔ انہیں ستمبر کے وسط میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔

ان کی صحت کے بارے میں تشویش اس وقت بڑھی جب انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کی جو دو ماہ تک جاری رہی۔

حسین رونقی کے بھائی حسن نے سوشل میڈیا پر تحریر کیا کہ ''حسین کو آج رات ضمانت پر رہا کیا گیا، تاکہ ان کا علاج کیا جاسکے''۔

ان کے والد احمد نے اسپتال میں داخل حسین کی تصویر شائع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں بھوک ہڑتال کے بعد رہا کیا گیا جو 64 دن تک جاری رہی۔

غفوری ایران کی قومی فٹ بال ٹیم کے ایک سابق کھلاڑی ہیں۔ اصل میں ان کا تعلق مغربی ایران کے کرد آبادی والے شہر سنندج سے ہے۔ جب سے جاری احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا ہے وہ اپنے میڈیا اکاؤنٹس اور سوشل میڈیا پر حکومت کے رویے پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔

پیر کے روز فیفا ورلڈ کپ کے موقعے پر ایرانی ٹیم نے ملک کا قومی ترانہ نہیں پڑھا تھا، جسے احتجاجی مظاہروں کی حمایت خیال کیا جا رہا ہے، جو ایران بھر میں ستمبر میں امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔

جمعے کے روز ٹیم نے بددلی کے ساتھ قومی ترانہ پڑھا، ایسے میں جب ان کا کھل کر مذاق اڑایا جا رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ کھلاڑی محض ہونٹ ہلا رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق امینی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے احتجاج اور کریک ڈاؤن کے بعد تقریباً 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں معروف صحافی، ثقافتی شخصیات، وکلا اور کھیلوں سے تعلق رکھنے والے مشہور افراد شامل ہیں۔

مظاہرین کے خلاف حکام کی سخت کارروائی کے دوران دیگر افراد کو بھی حراست میں رکھا گیا ہے، جس احتجاج کو 1979 کے انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج خیال کیا جا رہا ہے۔

زیر حراست معروف منحرفین میں عرش صادقی اور ماجد توکلی، صحافع نیلوفر حامدی اور الاھی محمدی شامل ہیں جنہوں نے امینی کیس کا انکشاف کرنےمیں مدد کی تھی۔

مشہور ایرانی فلم ساز جعفر پناہی اور محمد رسولوف کو احتجاجی مظاہروں سے پہلے، اسی سال ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG