رسائی کے لنکس

ایران کے متحدہ عرب امارات اور کویت سے سفارتی تعلقات بحال، سعودی عرب سےبات چیت جاری


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران اور مغربی ملکوں کے درمیان جوہری مذاکرات کے حوالے سے مثبت اشاروں کے دوران ، متحدہ عرب امارات اور کویت دونوں نے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات خاموشی سے بحال کر لیے ہیں۔ ایران کی وزارتِ خارجہ نے پیر کو بتایا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر بات چیت بھی مثبت سمت میں جا رہی ہے۔

تہران اور اس کے دیرینہ دشمن ریاض کے درمیان سفارتی سطح پر تجدید تعلقات کی بات چیت پر خطے کے ممالک کی نظریں مرکوز ہیں۔ ایران ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات 2016 میں سعودی شیعہ عالم نمر النمر کی پھانسی کے بعد منقطع ہو گئے تھے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ مثبت علاقائی ماحول سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممکنہ بحالی کی امید کو تقویت دے رہا ہے۔عراق اور عمان دونوں نے تہران اور ریاض کے درمیان غیر سرکاری مذاکرات کی ثالثی میں مدد کی ہے۔

کنعانی کہتے ہیں کہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں اور اس نے سعودی عرب کی جانب سے جوابی اقدامات کو دیکھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم پر امید ہیں کہ مثبت علاقائی فضا میل جول اور بات چیت کے راستے کو فروغ دے رہی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سنگین اختلافات اور کٹھن مسائل اب بھی تہران اور ریاض کو تقسیم کرتے ہیں لیکن مذاکراتی راستے پر 'مثبت اقدامات' کیے گئے ہیں۔

پیرس یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھانے والے خطارابو دیاب نے وی او اے کو بتایا کہ حال ہی میں ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات نے ایک مثبت علاقائی فضا پیدا کی ہے جو ایران اور سابق مخالفین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے رہی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ بغداد میں سعودی۔ ایران مذاکرات اور ترکی اور سعودی عرب کے بہتر ہوتے تعلقات نے علاقے میں کشیدگیوں میں کمی کے تاثر اور تنازع کی راہ پر چلنے کے بجائے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے طے کرنے کی ایک منطق کو جنم دیا ہے۔

ابو دیاب نے دلیل دی کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی اتحادیوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات پر متعدد حملوں کے باوجود امارات اور ایران کے درمیان تجارت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا اور ایک اچھے ہمسائے کی پالیسی اب بھی قائم ہے۔

واشنگٹن میں مقیم خلیجی تجزیہ کار تھیوڈور کاراسک نے وی او اے کو بتایا کہ یو اے ای اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقا ت کی بحالی موجودہ تبدیل ہوتے ہوئے اسٹرٹیجک ماحول کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے کہاکہ امارات کی جانب سے تہران کے ساتھ مزید رابطوں کو جغرافیائی صورتِ حال، کرونا وبا اور دیگر مسائل کو اقتصادی بحالی کی وجہ سے ایک ضرورت سمجھا گیا ہے۔

اٹلانٹک کونسل میں مشرقِ وسطیٰ کے تجزیہ کار، پال سلیوان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت "2017 میں اپنے عروج پر تھی، جو دونوں ملکوں کے تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے گرتی جا رہی تھی۔" ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ "دبئی میں پانچ سے چھ لاکھ ایرانی موجود ہوں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "جی سی سی۔ ایران کشیدگی، یمن میں جنگ اور ایران کی جانب سے حزب اللہ اور خطے میں دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت نے متحدہ عرب امارات میں شدید بے چینی پیدا کی ہے۔"

جواز پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں "حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات ایران میں ایک سفیر بھیج رہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب ٹھیک ہے، زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ دلیل دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کے تعلقات کے فرو غ کے لیے زیادہ سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "امریکی پابندیاں متحدہ عرب امارات میں ایرانیوں کے لیے اور امارات اور ایران کے درمیان مالی و دیگر انتظامات کے لیے اب بھی لاگو ہیں۔"

XS
SM
MD
LG