برطانوی شہریت کے حامل ایران کے سابق نائب وزیرِ دفاع کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کے الزامات کے تحت پھانسی دے دی گئی ہے۔
ایرانی عدلیہ سے منسلک خبر رساں ایجنسی 'میزان' نے ہفتے کو اپنی ٹوئٹ میں علی رضا اکبری کو پھانسی دیے جانے کی تصدیق کی تاہم یہ نہیں بتایا کہ اُنہیں کب پھانسی دی گئی۔
ایرانی عدلیہ نے علی رضا اکبری پر الزام عائد کیا تھا کہ ''اُنہوں نے بدعنوانی اور خفیہ معلومات دُشمن ملک کو فراہم کر کے ملک کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈالا۔'' ان الزامات کے تحت اُنہیں سزائے موت سنا دی گئی تھی۔
برطانوی حکام نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ وہ علی رضا اکبری کی سزائے موت پر عمل درآمد سے باز رہے، لیکن اس کے باوجود علی رضا اکبری کو پھانسی دے دی گئی۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران علی رضا اکبری کو اُن کے بقول 'سیاسی بنیادوں' پر پھانسی دینے سے باز رہے۔
جمعرات کو ایران کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ 61 سالہ علی رضا اکبری وزارتِ دفاع میں اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ ان میں 1997 سے 2005 کے دوران سابق صدر محمد خاتمی کے دور میں نائب وزیر دفاع کے علاوہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل سیکریٹریٹ میں اہم عہدہ بھی شامل تھا۔
علی رضا اکبری نیوی کمانڈر کے مشیر جب کہ وزارتِ دفاع میں ریسرچ سینٹر ڈویژن کی بھی سربراہی کر چکے تھے۔
ایرانی میڈیا نے علی رضا اکبری کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں وہ مبینہ طور پر برطانیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
علی رضا اکبری مذکورہ ویڈیو میں بتا رہے ہیں کہ برطانیہ نے اُن سے ایران کے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ سے متعلق سوالات پوچھے۔ محسن فخری زادہ نومبر 2020 میں ایران کے مضافات میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران نے اُن کی ہلاکت کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'میزان' نے ایران کی انٹیلی جنس ایجنسی کے حوالے سے بتایا تھا کہ علی رضا اکبری ایرانی حکومت میں حساس عہدوں پر تعینات رہنے کے باعث برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے لیے 'اہم جاسوس' سمجھے جاتے تھے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق اکبری کو مارچ 2019 سے مارچ 2020 کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران، عراق جنگ میں بھی شامل رہے تھے۔
واضح رہے کہ ایران نے دسمبر میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزامات کے تحت چار افراد کو پھانسی دی تھی۔
علی رضا اکبری کو ایسے وقت میں پھانسی دی گئی ہے جب ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس تحویل میں ہلاکت پر ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مہسا امینی کو گزشتہ برس 16 ستمبر کو ایران کی اخلاقی پولیس نے ڈریس کوڈ پر عمل درآمد نہ کرنے پر حراست میں لیا تھا، بعدازاں پولیس کی تحویل میں اُن کی ہلاکت ہو گئی تھی۔
اس معاملے پر ملک بھر میں پھوٹنے والے پرتشدد مظاہروں میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ ایرانی عدلیہ نے ان مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں 18 افراد کو موت کی سزا سنا رکھی ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔