ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ واشنگٹن میں تعینات سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی مبینہ ایرانی سازش سے متعلق امریکی الزامات کا جائزہ لینے پر آمادہ ہے۔
پیر کو ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' نے خبر دی ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ مقدمے سے متعلق موجود دستاویزات ایران کو پیش کرے۔
ایران نے نہ صرف امریکی الزامات کی تردید کی ہے بلکہ کسی ممکنہ فوجی ردِ عمل کا بھی سخت جواب دینے کا عندیہ دیا ہے۔ گزشتہ روز ایران کے اعلیٰ ترین روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا تھا کہ سازش کے جواب میں امریکہ کی جانب سے کسی بھی "نامناسب" سیاسی یا فوجی کاروائی کا "تباہ کن جواب" دیا جائے گا۔
ایرانی رہنما نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران پر عائد کیے گئے الزامات کا مقصد امریکہ کے داخلی معاشی مسائل اور وہاں جاری احتجاجی تحریک سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ انہیں مبینہ سازش کےحوالے سے ایران، امریکہ اور سعودی عرب کے خطوط موصول ہوئے ہیں جنہیں انہوں نے غوروخوض کے لیے سلامتی کونسل کو بھجوادیا ہے۔
اس سے قبل اتوار کو ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے کہا تھا کہ ایرانی مہذب قوم ہیں جنہیں قتل کا راستہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے انٹیلی جنس امور ڈائی ین فائنسنٹائن نے گزشتہ روز 'فوکس نیوز' سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ امریکی حکام کو مبینہ سازش میں ایران کی 'القدس فورس' کے ملوث ہونے کے پکے ثبوت مل گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ منگل کو امریکی محکمہ انصاف نے امریکہ میں تعینات سعودی سفیر کو بم حملے کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی سازش کے الزام میں ایک ایرانی نژاد امریکی شہری منصور ارباب سیار اور ایران کی القدس فورس کے ایک رکن غلام شکوری پر فردِ جرم عائد کی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ واشنگٹن انتظامیہ کے اہلکاروں اور ایرانی حکام نے درمیان مبینہ سازش کے حوالے سے براہِ راست رابطہ ہوا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ رابطے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ امریکہ مبینہ سازش کو "ناقابلِ قبول" اور امریکی اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی گردانتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات گزشتہ تین دہائیوں سے معطل ہیں۔