ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام پر طویل المدت قدغن قبول نہیں کرے گا۔
انھوں نے یہ بات منگل کو دیر گئے اپنے خطاب میں کہی اور یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتیں تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک جامع معاہدے کو 30 جون تک حتمی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
فریقین اس مجوزہ معاہدے کی جزیات پر کام کرتے آئے جس کے تحت ایران کو دس سال تک اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا ہوگا۔ بدلے میں ایران پر عائد ان پابندیوں میں رعایت کردی جائے جن سے اس ملک کی اقتصادیات اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
خامنہ ای کا کہنا تھا کہ دس یا بارہ سال تک جاری رہنے والی حد قابل قبول نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کے کسی حصے کے تحت یہ جاننے کے لیے کہ ایران اس پر کاربند ہے، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو فوجی تنصیبات تک رسائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایران کے ساتھ برطانیہ، فرانس، چین، روس، امریکہ اور جرمنی پر مشتمل گروپ کے حتمی معاہدے کے لیے ہونے والی بات چیت میں جو معاملہ حل طلب چلا آرہا ہے وہ یہ ہے کہ تہران پر سے پابندیاں ہٹائے جانے یا ان میں نرمی کی رفتار کیا ہوگی۔
لیکن خامنہ ای نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایران چاہتا ہے کہ جیسے ہی معاہدے پر دستخط ہوں اقتصادی پابندی ہٹا لی جائیں۔
مغربی ممالک ایران پر جوہری ہتھیار کی تیاری میں مصروف ہونے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں جن کی تردید کرتے ہوئے تہران کا موقف رہا ہے کہ اس کا پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔