ایران نے کہا ہے کہ شام میں امریکہ کی سرپرستی میں قائم کی جانے والی 30 ہزار افراد پر مشتمل نئی مضبوط فورس کے قیام سے صرف جنگ کے شعلوں کو ہی ہوا ملے گی۔
ایران کا یہ بیان روس اور ترکی کے رد عمل کی بازگشت ہے جس میں ان دونوں ملکوں نے امریکی منصوبے پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔
اتوار کے روز امریکی قیادت کے اتحاد نے کہا تھا کہ وہ شام کی ملیشاؤں کے اتحاد کے ساتھ مل کر ایک نئی فورس کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے جو شام کے اندر ترکی اور عراق کی سرحدوں پر تعینات کی جائے گی۔ نئی مجوزہ فورس میں اکثریت شام کے حکومت مخالف گروپ سیرین ڈیموکریٹک فورسز یعنی ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں کی ہوگی۔
شام کے صدر بشارالاسد نے اپنے ردعمل میں نئی فورس کی کچلنے اور امریکی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
شام کے سب سے مضبوط اتحادی روس نے امریکی منصوبے کو شام کے ٹکڑے کرنے اور اس کا کچھ حصہ اپنے کنڑول میں رکھنے کا پلاٹ قرار دیا ہے جب کہ ترکی نے نئی فورس کو ’دہشت گرد فوج‘ کا نام دیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا ہے کہ اس طرح کی فورس کے قیام سے شام کی کشیدگیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔
ایران گذشتہ تقریباً سات سال ہے شام کی خانہ جنگی میں باغی فورسز اور داعش کے خلاف صدر بشارالاسد کی ہتھیاروں اور فوجیوں کے ساتھ مدد کر رہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایک نئی سرحدی فورس کے قیام کا اعلان یقیناً شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ انہوں نے شام سے امریکی فورسز کے فوری انخلا پر بھی زور دیا۔
امریکہ شام میں اس بین الاقوامی فوجی اتحاد کی قیادت کر رہاہے جو داعش کے خلاف لڑنے والے شامی جنگجوؤں کی مدد کے لیے فضائی بمباری اور جنگی امور میں مشاورت کر رہا ہے۔ شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً 2 ہزار ہے۔