ایران کی ایک ٹی وی میزبان نے کہا ہے کہ کئی سال تک اسٹیشن ڈائریکٹر کی طرف سے مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد وہ جنوری میں اپنی ملازمت چھوڑنے اور ملک سے فرار پر مجبور ہوئیں۔
پریس ٹی وی کی سابق براڈکاسٹر شینا شیرانی نے گزشتہ ہفتے کئی پیغامات اور وائس میلز شائع کیں جو مبینہ طور پر انہیں نیوز ڈائریکٹر حمید رضا عمادی کی طرف سے موصول ہوئی تھیں۔
پریس ٹی وی نے کہا ہے کہ عمادی اور اسٹیشن کے ایک اور عہدیدار کو مزید نوٹس تک معطل کر دیا گیا ہے جس دوران اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔
شیرانی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہمارے معاشرے میں عورتوں کی بنیادی طور پر کوئی قدر نہیں۔ عمادی صاحب جیسے لوگوں کو صرف ملازمت سے نکالنا معاشرے میں وسیع پیمانے پر موجود جنسی ہراس کے مسئلے کا حل نہیں۔‘‘
ان پیغامات میں مبینہ طور پر عمادی کو بار بار یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کس طرح شیرانی کی اسٹیشن میں مدد کی اور ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان کے درمیان مبینہ گفتگو کی ایک ریکارڈنگ میں عمادی کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ شینا شیرانی کو جنسی تعلق کے لیے اپنے گھر بلاتے ہیں۔
ایران کے سرکاری خبررساں ادارے نے پریس ٹی وی کے حکام کے حوالے سے کہا کہ ’’انقلاب مخالف افراد کی ساز باز سے اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کے لیے یہ آڈیو فائل نشر کی گئی۔‘‘
شینا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’جو لوگ کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہیئے کہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں انہیں انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک عورت کو اپنی مشکلات بیان کرنے میں خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق شینا ایران سے چلی گئی ہیں اور انہوں نے ابھی اپنے موجودہ مقام کے بارے میں نہیں بتایا۔
یورپی یونین نے سیاسی قیدیوں کے مبینہ طور پر جبری اقبالی بیانات نشر کرنے پر 2013 میں عمادی اور پریس ٹی وی میں ان کے افسر محمد سرفراز پر پابندی عائد کر دی تھی۔