امریکی حکام نے ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز میں ایک فوجی پریڈ پر حملے میں ملوث ہونے کے ایرانی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو بدامنی کی وجوہات اپنے اندر تلاش کرنی چاہئیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نِکی ہیلی نے اہواز حملے پر ایرانی حکام کے الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ ایران کے عوام ایک عرصے سے جبر کا شکار ہیں اور یہ حملے اسی جبر کا نتیجہ ہیں۔
اتوار کو اپنے ایک بیان میں امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر امریکہ پر جس چیز کا چاہیں، الزام عائد کرسکتے ہیں لیکن انہیں دراصل آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکہ پر بالواسطہ طور پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خطے میں کرائے کے سپاہی کا کردار ادا کرنے والے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
اتوار کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک روانگی سے قبل سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا تھا کہ امریکہ ان ملکوں کو بھڑکاتا ہے اور انہیں ایسے جرائم کے ارتکاب کے لیے ضروری وسائل فراہم کرتا ہے۔
صدر روحانی نے الزام عائد کیا کہ دنیا میں امریکہ کا کردار ایک بدمعاش کا ہے لیکن اسے اپنی "جارحیت" پر پچھتانا پڑے گا۔
ہفتے کو اہواز میں فوجی پریڈ کے دوران مسلح افراد کی فائرنگ سے 25 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایرانی فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے 12 اہلکار بھی شامل ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوارٹ نے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ شدت پسند اسلامی دہشت گردی کے مقابلے میں ایرانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سکیورٹی اداروں کو حملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ حملے کی کڑیاں خطے میں امریکہ کے اتحادیوں سے ملتی ہیں۔
'پاسدارانِ انقلاب' کے نائب سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی نے بھی حملے کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران کے "تباہ کن" جواب کے لیے تیار رہیں۔
پیر کو اہواز حملے کی ہلاک شدگان کی تدفین سے قبل شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی جنرل نے دعویٰ کیا کہ امریکہ اور اسرائیل اس سے قبل بھی "ایران کے انتقام کا مزہ چکھ چکے ہیں اور انہیں دوبارہ ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ وہ اپنی حرکت پر پچھتائیں گے۔"
ایران کے وزیر برائے انٹیلی جنس محمود علوی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ہفتے کو ہونے والے حملے کے بعد کئی مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔
ایرانی حکومت نے واقعے کے ردِ عمل میں پیر کو ملک بھر میں یومِ سوگ کا اعلان کیا ہے جس کے دوران صوبہ خوزستان میں تمام سرکاری دفاتر، بینک اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔
اہواز صوبہ خوزستان کا دارالحکومت ہے جس کی سرحد عراق سے ملتی ہے۔ ایران کے اس صوبے میں عربوں کی بڑی تعداد آباد ہے جو ایران کی شیعہ حکومت کی پالیسیوں سے نالاں رہتے ہیں۔
حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش اور خوزستان میں آباد عرب نژاد ایرانی اقلیت کی ایک جنگجو تنظیم 'عرب اسٹرگل موومنٹ فار لبریشن آف اہواز' نے قبول کی ہے۔
حکام کے مطابق حملے میں چار مسلح جنگجو ملوث تھےجن میں سے دو موقع پر ہی مارے گئے جب کہ دو کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کے بعض افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگجووں کو خلیجی عرب ملکوں میں تربیت دی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایران کی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کو حملے کے بعد نیدرلینڈز، ڈنمارک اور برطانیہ کے سفیروں کو طلب کرکے ان سے "ایران میں سرگرم حکومت مخالف تنظیموں کو پناہ دینے" پر احتجاج کیا تھا۔