امریکہ نے ضمیر کے ایک قیدی کی بھوک ہڑتال کے دوران ہلاکت پر تہران کی مذمت کی ہے جسے سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف لکھنے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے 13 دسمبر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں نائب ترجمان رابرٹ پیلیڈینو نے کہا ہے کہ واحد سیدی نصیری کو ، جس کی ہلاکت 12 دسمبر کو ہوئی تھی، چار ماہ قبل گرفتاری کے بعد سے ایرانی حکام کی جانب سے استبدادی حراست میں رکھا جا رہا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ نصیری کو وکیل تک رسائی نہیں دی گئی اور انہیں غیر انسانی حالات میں رکھا گیا اور ان پر قومی سلامتی کے جھوٹے الزامات عائد کیے گئے، مثال کے طور پر سپریم لیڈر کی توہین کرنا وغیرہ۔
ایران میں اختلاف رائے کی وجہ سے حراست میں لئے گئے ایک بھوک ہڑتالی کی ہلاکت نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور سماجی میڈیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
متاثرہ شخص کے اہل خانہ نے وائس آف امریکہ فارسی سروس کو بتایا کہ شمالی شہر قم میں بدھ کو جیل حکام نے ٹیلی فون کر کے بتایا کہ واحد سیدی نصیری کا قم کے اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔
ان کی والدہ اور بھائی نے بتایا کہ بعد میں انھوں نے لاش حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسپتال کے عملے بتایا کہ قم کے مرکزی قبرستان کے مردہ خانہ والے انھیں لے گئے ہیں۔
نیویارک میں قائم سینٹر فار ہیومن راٹئس ان ایران (سی ایچ آر آئی ) کے مطابق 28 سالہ سیدی نصیری جائیدار کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستہ تھے اور سماجی میڈیا پر ایرانی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے، لیکن حراست میں ان کی ہلاکت تک اکثر افراد ان سے لاعلم تھے۔
ایچ آر آے این اے کا کہنا ہے کہ ایرانی انٹیلی جینس ایجنٹوں نے سیدی نصیری کو قم میں اس سال جولائی میں حراست میں لیا تھا اور حکام نے ستمبر میں انھیں ریاست کے خلاف پروپگنڈہ اور ایرانی سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامینائی کی توہین کے الزام میں جیل بھیج دیا تھا۔ بعد میں انقلابی عدالت نے انھیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنا دی تھی۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اس گروپ کا کہنا ہے کہ سیدی نصیری پہلے بھی اسی طرح کے الزام میں دو سال کے لئے جیل کی سزا کاٹ کر اس سال مارچ میں ہی رہا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی حالیہ حراست کے دوران جیل میں غیر انسانی صورت حال اور وکیل تک رسائی نہ دینے کے خلاف 13 اکتوبر کو احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی جس دوران وہ اپنی قید کے 60 ویں دن ہلاک ہو گئے۔
جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایرانی عدالتی خبررساں ادارے میزان نے صوبہ قم کے چیف پراسیکیوٹر شکراللہ بہرامی کے بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ جگر کے عارضہ کے باعث سیدی نصیری کی جسمانی حالت پہلے ہی کمزور تھی جس کی وجہ سے انھیں انتقال سے سات دن پہلے اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہلاکت کی وجہ معلوم کرنے کے لئے تحقیقات کی جا رہی ہے۔
سی ایچ آر آئی کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے سیدی نصیری کی ہلاکت نے ان کی طرح ختلاف رائے کی بنا پر قید کئے گئے دیگر بھوک ہڑتالیوں کے مسئلے کو فوری حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
اس گروپ نے ایک 48 سالہ ایرانی ڈاکٹر اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن میسامی کے مسئلے کا حوالہ دیا ہے جو تہرا ن کی جیل میں یکم اگست سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ انہیں ایرانی حکام نے اسلامی ریاست کی پالیسی اور خواتین کو پبلک مقامات پر حجاب پہنے پر مجبور کرنے کے خلاف کتاب اور پمفلٹ شائع کرنے کے دوسرے ہی دن گرفتار کر لیا تھا۔