ایران کے صدر حسن روحانی نے تنبیہ کی ہے کہ اگر امریکہ نے ان کے ملک پر پابندیوں میں توسیع کی تو اس پر "سخت ردعمل" سامنے آئے گا۔
امریکی کانگریس نے گزشتہ ہفتے ایران کے جوہری پروگرام کے تناظر میں عائد پابندیوں میں مزید دس سال کے لیے توسیع کے لیے رائے شماری کی تھی۔
منگل کو تہران میں یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر امریکی صدر براک اوباما یہ پابندیاں نافذ کرتے ہیں تو یہ گزشتہ سال ہونے والے جوہری معاہدے کی "صریح اور واضح خلاف ورزی" ہو گی۔
توقع ہے کہ اوباما جنوری میں اپنے عہدے سے سکبدوش ہونے سے قبل ایران پر پابندی کے ایکٹ پر دستخط کریں گے۔ ان کی انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ یہ پابندیاں جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔
کیپٹل ہل میں موجود ریپبلکنز ایرانی صدر کی برہمی پر تشویش میں دکھائی نہیں دیتے اور ان کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہیں۔
فلوریڈا سے سینیٹر مارکو روبیو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ ایرانی ردعمل کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان کے بقول یہ ملک "دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا معاون ہے۔"
جنوبی کیرولائنا سے سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایران کے ردعمل کو "دھمکی" قرار دیتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آئندہ سال ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
کانگریس میں ایران پر پابندیوں کا قانون پہلی مرتبہ 1996ء میں منظور ہوا تھا جس کی بعد سے متعدد بار تجدید کی جا چکی ہے۔ اوباما نے جوہری معاہدے کے حصے کے طور پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق پابندیوں کے حصے کو معطل کر دیا تھا، لیکن انے مسترد نہیں کیا اور اس پر آنے والے صدر صورتحال دیکھ کر عملدرآمد کریں گے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے تہران میں اپنے خطاب مں کہا کہ "امریکہ۔۔۔ہمارا دشمن ہے، ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں۔ امریکی ہم پر ہر ممکن دباو ڈالنا چاہتے ہیں۔"
امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ منصب سنبھالنے کے بعد جوہری معاہدے کو "تار تار کر دیں گے" اور بظاہر یہ بیان روحانی کی برہمی کا باعث ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں ٹرمپ کا نام تو نہیں لیا اور انھیں "امریکہ میں منتخب ہونے والا ایک آدمی" کہہ کر مخاطب کیا۔
"اس شخص کے جو بھی منصوبے ہیں، وہ بعد میں سامنے آئیں گے۔ وہ جوہری معاہدے کو کمزور کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ معاہدے کو تار تار کرنے کے خواہاں ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے ہم ایسا کرنے دیں گے؟ کیا ہماری قوم اس کی اجازت دے گی؟"
ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی جوہری معاہدے کو "تباہ کن" قرار دیتے ہوئے یہ عزم ظاہر کر چکے ہیں کہ اس معاہدے کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔