ایران کے پبلک پراسیکیوٹر نے اتوار کو کہا تھاکہ تہران نے ملک کی متنازعہ اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا ہے، تاہم پولیس کے محکمےکی نگرانی کرنے والی وزارت داخلہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔اور بیشتر اخبارات نے اس خبر کو نظرانداز کیا ہے۔
پیر کے روز ایرن کے قدامت پسند پریس نے ان رپورٹوں کو نظر انداز کیا ہےکہ اسلامی جمہوریہ نے کئی ہفتوں کے احتجاج کے بعد اپنی اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا ہے، اصلاح پسند روزناموں میں سے بھی صرف چارنےیہ خبر صفحہ اول پر لگائی ہے۔
یہاں تک کہ بعض اصلاح پسند اخبارات نے اس خبر پر سوالات بھی اٹھائے۔
اتوار کو آئی ایس این اے نیوز ایجنسی کی طرف سے شائع کیےگئے تبصروں میں، پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری نے مظاہرین کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے تشکیل دینے والوں نے اسے ختم کر دیا ہے۔"
تہران کی اخلاقی پولیس کی جانب سے ملک میں خواتین کے لباس کے سخت کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد کرد ایرانی 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد دو ماہ سے زیادہ کے مظاہروں نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے جس نے ایرانی بادشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا، حکام نے خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے لباس کے سخت ضابطوں کی پابندی کی نگرانی کی ہے۔
اخلاقی پولیس کو،جسے’’گشت ارشاد‘‘ یا "گائیڈنس پٹرول" کے نام سے جانا جاتا ہے ، "شرم و حیا اور حجاب کی ثقافت کو پھیلانے" کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
انہوں نے 2006 میں گشت کرنے کا آغاز کیا تھا اور ان کا کردار ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔
ایران کے اصلاح پسند اخبارات کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار
لیکن پیر کے روز اصلاح پسند اخبارات میں سے صرف چار نے اخلاقی پولیس کے بیان کردہ انجام کا حوالہ دیا، اور کچھ نے شکوک و شبہات کے ساتھ ایسا کیا۔
اصلاح پسنداخبار سازدیگی کی سرخی تھی ، "اخلاقی پولیس کا خاتمہ۔’’اس نے اطلاع دی ہے کہ "اخلاقی پولیس کے خلاف 80 دن کے احتجاج کے بعد، پراسیکیوٹر جنرل نے اسے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
تاہم، شرق اخبار نے اپنے صفحہ اول پر سوال کیا: "کیا یہ گشت کا خاتمہ ہے؟"
اس نے رپورٹ کیا، "جب کہ پراسیکیوٹر جنرل نے تصدیق کی ہے کہ اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا گیا ہے، پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس خاتمے کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے"
اخبار نے مزید کہا کہ تہران پولیس کے تعلقات عامہ کے سربراہ کرنل علی صباحی سے جب منتظری کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ’’یہ کہیئے گا بھی مت کہ آپ نے ہمیں کال کی تھی۔‘‘
صباحی نے مبینہ طور پر شارق کو بتایا، "اس قسم کی بحث کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے، اور جب مناسب ہو گا تو پولیس اس کے بارے میں بات کرے گی۔"
ایک اور اصلاح پسند اشاعتی ادارے" ارمان ملی "نے سوال کیا کہ کیا یہ واقعی "اخلاقی پولیس کا خاتمہ ہے؟"
چوتھے اخبار"ہام میہان" نے زور دیا، "عدالتی حکام نے ایک اعلان کیاہے لیکن کسی اور اتھارٹی نے اخلاقی پولیس کو تحلیل کرنے کا اعلان نہیں کیا۔"
امریکہ کا ردعمل
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے سی بی ایس کےشو "Face the Nation"میں پوچھا گیا کہ کیا اخلاقی پولیس کے خاتمے سے ایران میں احتجاج ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایرانی عوام پر منحصر ہے۔ "یہ ان کے بارے میں ہے۔" "
"مہسا امینی کے قتل کے بعد سے جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ ایرانی عوام کی غیر معمولی جرات ہے، خاص طور پر یہ کہ نوجوان خواتین مظاہروں کی قیادت کر رہی ہیں، جو کچھ وہ کہنا چاہتی ہیں، وہ کہیں، ’ پہننے کے حق کے لیے کھڑی ہیں، جو وہ پہننا چاہتی ہیں وہ پہنیں‘۔" بلنکن نے کہا۔
"لہذا، اگر حکومت نے اب مظاہروں کا کچھ انداز میں جواب دیا ہے، تو یہ ایک مثبت بات ہو سکتی ہے،" انہوں نے کہا۔ "لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ عملی طور پر کیسے کام کرتا ہے اور ایرانی عوام کیا سوچتے ہیں،"
(یہ رپورٹ وائس آف امریکہ اور ایجنسی فرانس پریس کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے)