شیعہ اور سنی طاقتیں تصور ہونے والے ممالک سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کی وجہ سے سعودی عرب میں ایرانی حاجیوں کو سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔تاہم اس بار حج ایسے حالات میں ہو رہا ہے جب تین ماہ قبل ہی ریاض اور تہران نے دوطرفہ تعلقات کی بحالی پر اتفاق کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی عازمین حج کے دوران ماحول میں آنے والی تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں۔
ایک ایرانی عازمِ حج نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں ایرانی عازمین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا آنا پسند نہیں کیا جاتا تھالیکن دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے بعد ماحول میں تبدیلی آئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016 میں اس وقت حالات بدترین سطح پر پہنچ گئے تھے جب سعودی حکومت نے شیعہ عالم دین نمر النمر کو سزائے موت دے دی تھی۔
رواں برس مارچ میں جب دونوں ممالک نے چین کی ثالثی سے تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ کیا تو یہ دنیا کے لیے ایک حیران کُن خبر تھی۔ اس معاہدے کے بعد ایران نے ریاض میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا اور رواں ماہ سعودی وزیرِ خارجہ نے تہران کا دورہ کیا۔
اس معاہدے کے پورے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیوں کہ یہاں مختلف ممالک میں ایران اور سعودی عرب متعدد تنازعات میں الگ الگ فریقوں کے حامی رہے ہیں۔
سعودی عرب نے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک بین الاقوامی اتحاد یمن میں 2015 سے حوثی باغیوں سے لڑائی میں مصروف تھا۔ اسی طرح ریاض نے شام کے صدر بشار الاسد سے بھی تعلقات بحال کرلیے ہیں جو اس سے قبل ایرانی حمایت کے باعث عرب دنیا میں سفارتی تنہائی کا سامنا کررہے تھے۔
’اب ہم دوست بن گئے ہیں‘
حج کے موقع پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ماضی میں بھی تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ 2016 میں ایرانی عازمین کو حج میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس کی وجہ دونوں ممالک کے درمیان ایرانی عازمین کی حج میں شرکت سے متعلق قواعد پر اتفاق رائے نہ ہونا بتائی گئی تھی۔
اس سے قبل 2015 میں جب بھگدڑ کے باعث2300حاجیوں کی جان گئی تھی تو اس وقت بھی سعودی عرب اور ایران نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے تھے۔ اس حادثے میں 400 ایرانی عازمینِ حج ہلاک ہوگئے تھے۔لیکن اس سال مکہ میں ایرانی عازمین کے لیے مخصوص ہوٹلوں اور بسوں وغیرہ پر جابجا ایرانی پرچم نظر آ رہے ہیں۔
ایک ٹور آپریٹر کا کہنا ہے کہ اب حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ وہ یہاں اپنے خاندان کے ساتھ آئے ہیں اور اطمینان محسوس کررہے ہیں۔
ایرانی میڈیا کے رپورٹس کے مطابق اس سال 86 ہزار ایرانی عازمین حج ادا کررہے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے حج کے لیے عمر کی حد ختم کرنے کے بعد ان عازمین میں 80 سال سے زائد عمر کے 300 حجاج بھی شامل ہیں۔
مکہ میں ایرانی عازمین کے لیے مخصوص ایک ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود سعودی خاتون کا کہنا ہے کہ خدشات تو رہے لیکن لوگ خدا کے گھر آنے کی آرزو رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مفاہمت کے بعد اب ہم دوست بن گئے ہیں۔ اب حالات پہلے سے بہتر ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک عمرے کی رسائی میں اضافے کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔
سعودی تاجر الولید کا کہنا ہے کہ ایرانی بڑی تعداد میں حج کرنے آتے ہیں۔ اس لیے دو طرفہ تعلقات سے معاشی فائدہ بھی ہوگا۔
ایران کے جنوبی شہر اہواز سے حج پر آنے والی زینب المقلی نے سعودیوں کی مہمان نوازی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ان کا شان دار استقبال کیا گیا اور جب سے وہ سعودی عرب آئی ہیں انہیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ ہم نے انہیں کوئی تکلیف پہنچائی اور نہ ہی انہوں نے ہمیں پریشان کیا۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔