عراق کے مغربی شہر فلوجہ میں ہونے والی لڑائی کے دوران سیاہ نقاب پہنے القاعدہ کے جنگجوؤں نے حکومت کی عمارتوں پر اپنا پرچم لہرا کر دعوٰی کیا کہ یہ آزاد ’اسلامی ریاست‘ ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سنی جنگجو خود کو ’ممبرز آف اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور شام‘ یعنی (آئی ایس آئی ایس) کا نام دیتے ہیں اور اُنھوں نے جمعہ کو دن کے وقت فلوجہ شہر میں بجلی کی ترسیل کی لائنز کاٹ دیں اور مقامی آبادی کو حکم دیا کہ وہ جنریٹر استعمال نا کریں۔
فلوجہ پولیس کے سربراہ محمد السوائی نے (آئی ایس آئی ایس) کے دعوے کو رد کیا کہ اُن کا شہر پر کنٹرول ہے تاہم اُنھوں نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ شہر میں فیصلہ کن لڑائی کے لیے وہ فورسز کی تعیناتی کے مقامات میں تبدیلی اور ضروری تیاری کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مقامی قبائل کے ساتھ اتحاد کے باعث سرکاری فورسز مزید مضبوط ہوئی ہیں اور شہر کے مرکزی حصوں پر سرکاری قبضہ بحال کر لیا جائے گا۔
ایک مقامی صحافی نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ پولیس اور حکومت کی دیگر فورسز نے شہر کو گھیر رکھا ہے جب کہ القاعدہ کے جنجگوؤں نے عراق کے پرچم نذر آتش کر دیئے ہیں۔
مغربی عراق کے وسیع علاقے میں لڑائی پر قابو پانا اور اس کی زد سے ملک کے دیگر حصوں کو بچانا وزیراعظم نور المالکی کے لیے ایک چیلنج ہے۔
دریں اثنا صوبہ الا انبار کے دارالحکومت رمدی میں ایک قبائلی رہنماء نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ اُن کے مسلح لوگ القاعدہ کے حامیوں کو علاقے سے باہر نکالنے کے لیے پولیس کی کوششوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
قبائلی رہنما کے مطابق (آئی ایس آئی ایس) کا علاقائی کمانڈر عبدالرحمٰن البغدای لڑائی کے دوران مارے جانے والوں میں شامل ہے۔
عراق کا صوبہ الانبار ملک میں امریکی فوج کی آٹھ سالہ موجودگی کے دوران بھی سنی شدت پسندوں کا گڑھ رہا، اس خطے میں لڑائی کے دوران لگ بھگ 1300 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سنی جنگجو خود کو ’ممبرز آف اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور شام‘ یعنی (آئی ایس آئی ایس) کا نام دیتے ہیں اور اُنھوں نے جمعہ کو دن کے وقت فلوجہ شہر میں بجلی کی ترسیل کی لائنز کاٹ دیں اور مقامی آبادی کو حکم دیا کہ وہ جنریٹر استعمال نا کریں۔
فلوجہ پولیس کے سربراہ محمد السوائی نے (آئی ایس آئی ایس) کے دعوے کو رد کیا کہ اُن کا شہر پر کنٹرول ہے تاہم اُنھوں نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ شہر میں فیصلہ کن لڑائی کے لیے وہ فورسز کی تعیناتی کے مقامات میں تبدیلی اور ضروری تیاری کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مقامی قبائل کے ساتھ اتحاد کے باعث سرکاری فورسز مزید مضبوط ہوئی ہیں اور شہر کے مرکزی حصوں پر سرکاری قبضہ بحال کر لیا جائے گا۔
ایک مقامی صحافی نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ پولیس اور حکومت کی دیگر فورسز نے شہر کو گھیر رکھا ہے جب کہ القاعدہ کے جنجگوؤں نے عراق کے پرچم نذر آتش کر دیئے ہیں۔
مغربی عراق کے وسیع علاقے میں لڑائی پر قابو پانا اور اس کی زد سے ملک کے دیگر حصوں کو بچانا وزیراعظم نور المالکی کے لیے ایک چیلنج ہے۔
دریں اثنا صوبہ الا انبار کے دارالحکومت رمدی میں ایک قبائلی رہنماء نے اخبار واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ اُن کے مسلح لوگ القاعدہ کے حامیوں کو علاقے سے باہر نکالنے کے لیے پولیس کی کوششوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
قبائلی رہنما کے مطابق (آئی ایس آئی ایس) کا علاقائی کمانڈر عبدالرحمٰن البغدای لڑائی کے دوران مارے جانے والوں میں شامل ہے۔
عراق کا صوبہ الانبار ملک میں امریکی فوج کی آٹھ سالہ موجودگی کے دوران بھی سنی شدت پسندوں کا گڑھ رہا، اس خطے میں لڑائی کے دوران لگ بھگ 1300 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔