عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب شیعہ اکثریتی علاقوں میں پیر کو ہونے والے سلسلہ وار کار بم دھماکوں میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق سب سے مہلک حملہ صدر شہر میں ہوا جہاں بارودی مواد سے لدی ایک گاڑی میں مزدوروں کے ایک جمگھٹے کے قریب دھماکا کیا گیا۔
اس حملے میں دو فوجی بھی ہلاک ہوئے۔
فوری طور دھماکے کرنے والوں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا لیکن حال ہی میں سخت گیر موقف رکھنے والے سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے ایسے مہلک حملوں میں تیزی آئی ہے۔
پڑوسی ملک شام میں گزشتہ دو برسوں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ عراق میں شیعہ، کرد اور سنی حکومتی اتحاد پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
القاعدہ اور سنی شدت پسند اپنے حملوں میں شیعہ آبادی، سرکاری ملازمین اور حکومت کے حامی سنی گروہوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
اتوار کو ایک خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اس وقت اڑا دیا جب لوگ نماز جنازہ کے لیے اکٹھے ہوئے تھے جس سے 40 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگست کے مہینے میں شدت پسندی کے مختلف واقعات میں 800 عراقی ہلاک ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق سب سے مہلک حملہ صدر شہر میں ہوا جہاں بارودی مواد سے لدی ایک گاڑی میں مزدوروں کے ایک جمگھٹے کے قریب دھماکا کیا گیا۔
اس حملے میں دو فوجی بھی ہلاک ہوئے۔
فوری طور دھماکے کرنے والوں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا لیکن حال ہی میں سخت گیر موقف رکھنے والے سنی عسکریت پسندوں کی طرف سے ایسے مہلک حملوں میں تیزی آئی ہے۔
پڑوسی ملک شام میں گزشتہ دو برسوں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی نے فرقہ واریت کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ عراق میں شیعہ، کرد اور سنی حکومتی اتحاد پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
القاعدہ اور سنی شدت پسند اپنے حملوں میں شیعہ آبادی، سرکاری ملازمین اور حکومت کے حامی سنی گروہوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
اتوار کو ایک خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اس وقت اڑا دیا جب لوگ نماز جنازہ کے لیے اکٹھے ہوئے تھے جس سے 40 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگست کے مہینے میں شدت پسندی کے مختلف واقعات میں 800 عراقی ہلاک ہوئے ہیں۔