دمشق میں ہونے والے دو کار بم دھماکوں کے نتیجے میں انسانی اعضاٴ بکھر گئے اور نذر آتش ہونےوالی موٹر گاڑیاں اُڑتی ہوئی دھات کے پرزے بن کر ٹکرائے، جس کے باعث 26افراد ہلاک ہوگئے۔ شیعہ زائرین کو ہدف بنانے کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
یہ دھماکے ہفتے کو شہر کے شعلہ اور قدیمیہ کے مضافات میں بزرگ امام موسیٰ الخادم کی زیارت سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہوئے، جو کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پڑ پوتے تھے۔
حیدرغریب نے دھماکہ ہوتے دیکھا۔
اُنھوں نے بتایا کہ ایک پھیرا مکمل کرنے کے بعد زائرین کو اکثر و بیشتر اِسی پارک سے لفٹ ملتی ہے، جہاں کئی عدد کاریں موجود ہوتی ہیں۔ دھماکہ اُس مقام پر ہوا۔ جب ہم وہاں پہنچے ہم نے انسانی اعضا بکھرےہوئے دیکھے۔ اِس کا کیا سبب تھا؟ ایسا کیونکر ہوا؟ وہ تو محض زائرین تھے۔
محمد علی نے بتایا کہ اُنھوں نے شعلہ میں دھماکہ ہوتے دیکھا۔ اُن کے بقول، وہاں سکیورٹی برائے نام ہوتی ہے، نہ ہی خانہ تلاشی لی جاتی ہے۔ آج کا دِن مختلف تھا، اِس لیے کہ تمام سکیورٹی فورسز کو چوکنا کیا گیا تھا۔
حکام نے بتایا ہے کہ اِن واقعات میں کم از کم 60افراد زخمی ہوئے۔
شیعہ مسلک کےزائرین کےلیے یہ ہفتہ سالانہ زیارات کا اختتامی دِن تھا، اور اِسی ہفتے کے دوران عراق میں ہونے والےہلاکت خیز حملوں میں یہ تازہ ترین بم حملہ تھا۔
بدھ کےروز ایک مقدس شیعہ زیارت پر حاضری کے پہلے ہی دِن کار بم حملہ ہوا جس میں 72افراد ہلاک اور تقریباً 260زخمی ہوئے۔
شدت پسندوں کی ویب سائیٹ پر چوکسی رکھنے والے امریکہ میں قائم مبصرین کے ایک گروپ ’سائٹ انٹیلی جنس گروپ‘ کا کہنا ہے کہ ہفتے کو عراق میں القاعدہ سے منسلک ایک گروپ نے اِسی ہفتے ہونے والے دیگر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ’سائٹ‘ کے مطابق ، شدت پسندوں کے گروپ نے حملوں کی تعریف کرتے ہوئے اِنھیں حکومتِ عراق کے خلاف ’بدھ کا بابرکت فتح کا دِن‘ قرار دیا۔