امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق عراقی سیکورٹی فورسز اور حکومت سے منسلک ملیشیا نے ملک کے چھ شہروں اور دیہاتوں میں بظاہر گزشتہ ایک ماہ میں 255 قیدیوں کو قتل کر دیا ہے۔
تنظیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اموات بظاہر دولت اسلامی فی العراق ولشام ( داعش) کے شیعہ مسلمانوں پر حملوں کا ردعمل تھا۔ تنظیم کے مطابق مرنے والے بیشتر سنی مسلمان اور ان میں کم از کم آٹھ، 18 سال سے کم عمر کے نوجوان تھے۔
تنظیم کے مشرق وسطیٰ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر جوئے اسٹرک کا کہنا تھا کہ’’قیدیوں کا قتل عالمی قوانین کی وحشیانہ خلاف ورزی ہے۔ جیسا کہ دنیا بھر نے داعش کے ظالمانہ اقدام کی مذمت کی، حکومت اور ان کی حمایتی فورسز کی طرف سے فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل عام پر آنکھیں بند نہیں کی جانی چاہییں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے عراق میں جاری لڑائی کے دوران قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے حقائق جاننے اور ذمہ داروں کی نشاندہی کے لیے تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
قیدیوں کی ہلاکت کے پانچ واقعات تنظیم کے مطابق 9 اور 21 جون کو شمالی صوبہ نینوا، مشرقی صوبہ دیالا اور مغربی صوبہ انبار میں پیش آئے جن میں عینی شاہدین اور سرکاری عہدیداروں کے بقول فوجیوں اور حکومت نواز شیعہ ملیشیا نے گولیاں مار کر قیدیوں کو قتل کیا۔
تنظیم نے مقامی رہائیشیوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کے حوالے سے بتایا کہ ان امکانات کا بھی اظہار کیا گیا کہ یہ قتل اس خوف کی بنا پر کیے گئے ہوں کہ قیدی باغی جنگجوؤں کی صفوں میں شامل نا ہوجائیں۔ داعش نے گزشتہ ماہ پیش قدمی کرتے ہوئے مختلف علاقوں کی جیلوں سے قیدیوں کو بھی فرار کروایا تھا۔
بغداد ماضی میں ایسے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کی تردید کر چکا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے حالیہ واقعات پر وزارت داخلہ و دفاع نے تبصرہ کرنے سے اجتناب کیا۔
تنظیم کے مطابق 35 افراد سے بات چیت کرنے کے بعد یہ معلومات جمع کی گئیں جن میں عینی شاہدین، مرنے والوں کے رشہ دار شامل تھے۔ تنظیم کے مطابق ان میں سے بیشتر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔