عراق میں شیعہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی طرف سے پارلیمنٹ کے قریب سے اپنا احتجاجی دھرنا عارضی طور پر ختم کرنے کے اعلان کے بعد حکومت مخالف مظاہرین پیر کو پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ مگر اختتام ہفتہ رونما ہونے والی صورتحال ملک میں سیاسی بے چینی کا باعث بنی۔
گزشتہ ہفتہ کو مقتدیٰ کے ہزاروں حامیوں نے حساس ترین سرکاری علاقے "گرین زون" میں گھس کر پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بولا اور بعض قانون سازوں کو زدوکوب بھی کیا۔
مظاہرین بعد ازاں پارلیمنٹ کے قریب احتجاجاً دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔
مقتدیٰ الصدر عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی سے کابینہ میں ردوبدل کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
اتوار کو دیر گیے مظاہرین نے دھرنا ختم کر دیا اور مقتدیٰ کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ یہ اقدام شیعہ مسلک کے اہم مذہبی ایام کے احترام میں کیا گیا۔
مظاہرین کے پارلیمنٹ پر دھاوے کے بعد تقریباً 60 قانون ساز بغداد سے اربیل اور سلیمانیہ کے علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ ان میں اکثریت سنیوں اور کردوں کی تھی۔
حکام کے مطابق احتجاج کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو اس اہم ترین علاقے میں دھرنا دیے ہوئے تھے۔
گرین زون میں عام طور پر صرف خصوصی اجازت نامے یا کارڈ کے ذریعے ہی جانے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ یہاں اہم سرکاری عمارتوں کے علاوہ بین الاقوامی اداروں کے دفاتر اور امریکی سفارتخانے سمیت مختلف ملکوں کے سفارتی مشن واقع ہیں۔
ایک عراقی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ بہت خطرناک صورتحال تھی کیونکہ مظاہرین کسی بھی غیر ملکی سفارتخانے پر دھاوا بول سکتے تھے۔