عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نومبر کی سات تاریخ کو ایک قاتلانہ حملہ کا نشانہ بنے، مگر اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی۔ بعض مبصرین کے خیال میں حملے کی ذمہ دار عراقی شیعہ ملیشیا ہے، جس کی پشت پناہی ایران کرتا ہے اور جسے پچھلے ماہ عراق میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں بری طرح شکست ہوئی تھی۔
عمان سے ہمارے نامہ نگار، ڈیل گیولاک نے اپنی خصوصی رپورٹ میں روزنامہ 'سعودی عرب نیوز' میں تجزیہ کار خالد ابو ظہر کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ووٹوں کے نتائج سے یہ ثابت ہوگیا کہ عراقی عوام نے ملیشیا کو مسترد کر دیا۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے ایران کو بھی یہ واضح پیغام بھیجا گیا کہ "آپ اپنا گھر سنبھالیں، ہمارے داخلی معاملات میں دخل نہ دیں"۔
ابو ظہر کی دلیل ہے کہ عراق کو اپنی خود مختاری قائم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ فوری طور پر تمام ملیشیا سے ہتھیار رکھوا لیے جائیں، کیونکہ اس سے عراق کی خود مختاری کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا۔
انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پچھلے تین برسوں کے دوران ایسے تیس سرگرم کارکنوں کو قتل کردیا گیا جو ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔
واشنگٹن میں قائم، 'نیوز لائین انسٹی ٹیوٹ' کے سینئر تجزیہ کار نکولس ہراس کا کہنا ہے کہ الکاظمی پر قاتلانہ حملے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اب یہ ملیشیا پوری طرح سے ایران کے کنٹرول میں بھی نہیں رہی، اور اگر ایسا ہے، تو یہ معاملہ امریکہ کے پالیسی سازوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں الکاظمی ان ملیشیاؤں کو لگام ڈالنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بنیادی طور پر ایران نے عراق میں ملیشیا کا لامتناہی جال پھیلایا ہوا ہے۔ ایک کو راستے سے ہٹائیں، تو دوسری اس کی جگہ موجود ہوتی ہے۔ وزیر اعظم الکاظمی کے سامنے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وہ قانونی تحقیقات اور ضابطوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مسلح گروپوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ مگر عراق میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سیاسی نظام میں ایسے افراد موجود ہیں، جن کے ان ملیشیا گروپوں سے رابطے ہیں۔ اس لیے الکاظمی کے سامنے ملیشیا مافیا کے لاتعداد گروپوں سے نمٹنا ایک مشکل کام ہے۔
عمان میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی امور کے ایک ماہر، اسامہ الشریف کا خیال ہے کہ الکاظمی ایک غیر جماعتی طرز فکر رکھتے ہوئے اپنے ملک کو غیر جانب دار رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ ایران اور امریکہ کے درمیان اپنا اپنا اثر و نفوذ جمانے کی تگ و دو جاری ہے۔
مثال دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ الکاظمی نے اردن اور مصر کے ساتھ اقتصادی معاہدوں سے عراق کو الگ رکھنے کی کوشش کی اور ساتھ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی۔
الشریف 'جارڈن نیوز آن لائین' میں لکھتے ہیں کہ الکاظمی کے پاس بہت کچھ کرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کو سیاسی طور پر غرق ہونے اور ممکنہ خانہ جنگی سے بچا سکیں۔ الکاظمی کو ان ملیشیاز کو قابو میں رکھنے کی پوری اور کامیاب کوشش کرنا ہوگی۔ الشریف کے بقول، "عرب علاقے میں ایران کی بے جا مداخلت اور گڑبڑ پیدا کرنے کے ایجنڈے سے تنگ آچکے ہیں''۔