عراق نے کہا ہے کہ وہ نیم خود مختار کرد علاقے کے اس کرد ملیشا کو بھاری ہھتیار فراہم کرے گا جو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے برسرپیکار ہیں۔
کردفورسز کو ہھتیاروں کی فراہمی ایک متنازع معاملہ ہے کیونکہ کچھ عراقی سیاستدان اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ کرد رہنما مرکزی حکومت سے مکمل طور پر علیحدہ ہونےکے عزائم رکھتے ہیں۔
عراقی حکومت بھی کردوں کو براہ راست ہتھیار فراہم کرنے کے متعلق متذبذب رہی ہے کیونکہ اس کی خواہش ہے کہ عراق متحد رہے اور اس کی طرف سے اس طرح کے کسی بھی اقدام کے بار ے میں پس و پیش بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس سے کردو ں کی خودمختاری کے عزائم کو تقویت ملے گی۔
وزیر دفاع خالد العبیدی نے منگل کو کہا کہ "پیش مرگہ عراق کے دفاعی نظام کا حصہ ہیں اور ہماری حمایت ان کے لیے ہے۔ جو کچھ فوج کے پاس ہے وہ پیش مرگہ کے لیے ہے اور جو کچھ فوج سے چاہیے وہی کچھ پیش مرگہ سے بھی چاہییئے"۔
عبیدی نے مزید کہا کہ بغداد کی مرکزی حکومت پیش مرگہ جنجگوؤں کو بھاری ہتھیار فراہم کرے گی جن کو حاصل کرنے کا اس نے معاہدہ کر رکھا ہے۔
فوجی قوت اور تجربے کی کمی کی وجہ سے گزشتہ جون میں کردو ں کو جنگ میں اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شمال مغربی عراق میں ان کے مورچوں پر قبضہ کرلیا اور پھر بعد یہاں امریکہ نے یہاں فضائی کارروائیاں شروع کی۔
اس کے بعد کم ازکم آٹھ ملکوں نے کردوں کو مسلح کرنا شروع کیا جن کے سویت یونین کے دور کے ہتھیارباغیوں کی پیش قدمی کے خلاف غیر موثر ثابت ہو چکے تھے جبکہ دولت اسلامیہ کے پاس عراقی فوج کا اسلحہ تھا جو اس نے جون میں اپنی پوزیشن سے ہٹنے کے وقت چھوڑ دیا تھا۔
امریکی حکومت نے کردوں کی طرف سے دولت اسلامیہ سے مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ کی فراہمی کی درخواست کے بعد ان کو حال ہی میں براہ راست اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا۔
برطانیہ نے بھی عراقی کردو ں کے لیے 40 مشین گنیں اور ان کے جنگجوؤں کو ان سے متعلق تربیت کے لیے فوجی بھی روانہ کیے۔
کردوں کا کہنا ہے کہ انہیں دولت اسلامیہ کے جنجگوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھاری ہتھیاروں اور حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہے ۔
دوسری طرف پیر کو کرد پیش مرگہ فورسز اور معتدل شامی باغیوں نے دولت اسلامیہ کے مورچوں پر بمباری بھی کی۔