عراق کے وزیر اعظم نے پیر کے روز انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور دیگر زیادتیوں کی تفتیش کے احکامات جاری کیے، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ موصل شہر پر دوربارہ قبضے کے حصول کے لیے داعش کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران سرکاری فوج اور نیم سرکاری افواج سے سرزد ہوئیں۔
حیدر العبادی نے کہا ہے کہ چھان بین کے ذریعے شہری آبادی کے ’’اغوا، ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ سے متعلق الزامات کا جائزہ لیا جائے گا۔
العبادی نے ان واقعات کا ذمہ دار اُن گروہوں کو قرار دیا جو ’’عراقی فوج اور شیعہ اور سنی نیم سرکاری فوج کا نام استعمال کرتے ہیں‘‘۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مبینہ خلاف ورزیاں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں اور سماجی میڈیا پر شائع کی گئی ہیں، تاکہ ’’جیت کی خوشی ادھوری رہے اور بہادر فوج اور اُن کی قربانیاں رائیگان جائیں، جو ملک میں سلامتی کے قیام کی کوششیں کر رہی ہیں‘‘۔
العبادی کا یہ بیان اقوام متحدہ کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں وڈیو کی چھان بین کے لیے کہا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر داعش کے تین مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کرنے اور اُنھیں مارنے کی منظر کشی کی گئی ہے، جس کا تعلق مشرقی موصل کے واگزار ہونے والے کسی مقام سے بتایا جاتا ہے۔
تقریباً تین منٹ کی اِس وڈیو میں فوج اور پولیس کی وردیاں پہنے سکیورٹی فورسز کے کچھ ارکان مشتبہ شدت پسندوں کو رہائشی علاقوں سے گھسیٹتے اور مار پیٹ کرتے دکھائے گئے ہیں، جس کے بعد اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، جب کہ فوج کی کم از کم دو ’ہموی‘ اور بکتربند گاڑیاں قریب کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔
عراقی اور کُرد افواج نے موصل پر دوبارہ قبضے کے حصول کے لیے اکتوبر میں بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا، جس پر 2014ء کی موسم گرما میں داعش نے قبضہ جما لیا تھا۔ سرکاری فوج کو امریکہ کی فضائی مدد حاصل ہے، اور امریکی فوجیں سرزمین پر حمایت کا کردار ادا کرتی ہیں۔ نیم سرکاری فوجیں بھی اس کارروائی میں حصہ لے رہی ہیں۔ لیکن، یہ کارروائی صرف موصل کے مضافاتی علاقوں تک محدود ہے۔
سنہ 2011 میں عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد، یہ موصل کو واگزار کرانے کی سب سے بڑی فوجی کارروائی ہے۔ اگر یہ کارروائی کامیاب ہوتی ہے تو یہ داعش کو ملنے والی اب تک کی سب سے بڑی شکست ہوگی۔