جمعرات کو علی الصبح جب امریکہ کی بکتر بند گاڑیاں عراق سے گھر واپس جانے کے لیئے کویت میں داخل ہوئیں۔ تو کچھ ڈرامائی منظر دیکھنے میں آئے ۔ ایک گاڑی کو Troy Danahy چلا رہے تھے ۔ انھوں نے کہا’’مجھے بہت بڑے بوجھ سے نجات مل گئی۔ کویت پہنچ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کیوں کہ اب ہم گھر کی طرف روانہ ہونے والے ہیں۔‘‘
یہ سپاہی پورے ایک برس سے عراق میں تھے اور ان کے لیے یہ بڑا اہم لمحہ تھا۔ لیکن ان کی روانگی سے اچھی خاصی الجھن بھی پیدا ہوئی کیوں کہ اس قسم کی رپورٹیں آتی رہیں کہ وہ عراق میں آخری امریکی لڑاکا فوجی تھے۔ سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے ۔ یہ بریگیڈ آخری بڑا لڑاکا یونٹ ضرور تھا لیکن ابھی بعض چھوٹے یونٹ موجود ہیں اور وہ صدر اوباما کی 31 اگست کی ڈیڈ لائن تک عراق چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگرچہ جو 50 ہزار امریکی فوجی عراق میں اگلے سال کے آخر تک رہیں گے ان کا مشن لڑائی میں حصہ لینا نہیں ہوگا، لیکن اگر ان پر حملہ ہوا یا اگر عراقی فورسز کو مدد کی ضرورت پڑی تو ان میں لڑنے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔
یہی بات عراق میں امریکی فوجوں کے کمانڈر، جنرل Ray Odierno نے جولائی میں پینٹا گون میں بریفنگ کے دوران کہی تھی’’میں سمجھتا ہوں کہ 50,000 فوجیوں کی طاقت اچھی خاصی ہوتی ہے ۔ اگر ہمیں ضرورت پڑی اور عراقیوں نے ہم سے کہا، تو ہم مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
عراق میں اب تک باغیوں کے حملے جاری ہیں، لیکن جنرل Odierno نے کہا کہ عراقی فورسز اب ذمہ داری اٹھانے کی اہل ہیں اور امریکہ کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وعدے کے مطابق اپنی فوجیں نکال لی جائیں۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس مرحلے پر امریکی فوجوں کا عراق میں از خود فوجی کارروائیاں کرنا نقصان دہ ہو گا۔’’میں سمجھتا ہوں کہ کومبیٹ پٹرول کا مشن یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص ہدف کی تلاش میں جائے اور ملک کے اندر کوئی آپریشن کرے ۔ ہم یہ سب نہیں کرتے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم عراقی سکیورٹی فورس کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے جاتے ہیں، یا ہم نقل و حمل میں مدد دیتے ہیں۔ ہمارے بیشتر سپاہی عراقی سکیورٹی فورسز کے اندر شامل ہیں اور صر ف ایڈوائزر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم گذشتہ پانچ یا چھ مہینوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔‘‘
جمعرات کی شام تک عراق میں 52,000 امریکی سپاہی باقی رہ جائیں گے لیکن عہدے دار کہتے ہیں کہ اس مہینے کے آخر تک یہ تعداد کم ہو کر 50,000 رہ جائے گی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بقیہ امریکی فوجی اگلے سال کے آخر تک وہاں کیا کریں گے ۔ عہدے دار کہتے ہیں کہ یہ ہوائی طاقت اور دوسرا ضروری سازوسامان فراہم کریں گے ، شمال میں عراقی اور کردش فورسز کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد دیں گے اور عراقی فورسز کے قریبی تعاون سے کام کریں گے۔
ان سپاہیوں کو اس طرح منظم کیا گیا ہے جسے ملٹری کی اصطلاح میں ایڈوائز اینڈ اسسٹ بریگیڈز یعنی مشورہ اور مدد دینے والے بریگیڈ کہتے ہیں۔ لیکن ا ن میں بہت سے سپاہی وہی ہیں جو ماضی میں جنگی کارروائیاں کر تے رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کے ہتھیار اور بقیہ سازو سامان بھی ہوگا۔ پینٹا گون کے ترجمان Brian Whitman نے کہا ہے کہ اصل چیز لڑاکا اور غیر لڑاکا فوجیوں کے درمیان فرق نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ ان فوجیوں کو کیا مشن دیا گیا ہے ۔ امریکہ کے لیے جنگی مشن 31 اگست کو ختم ہو جائے گا۔ بلکہ عراق میں امریکہ کے مشن کا نام بھی تبدیل ہو جائے گا۔
اب تک ا س مشن کو آپریشن عراقی فریڈم کہا جاتا تھا جبکہ نیا نام آپریشن نیو ڈان ہے ۔ ’’نام کی تبدیلی سے اور مشن کی تبدیلی سے، اس ترقی کی عکاسی ہوتی ہے جو عراق میں ہوچکی ہے ۔ اس طرح ہم جنگی مشن سے استحکام قائم کرنے کے مشن میں داخل ہو گئے ہیں۔ پہلے ہمارا اصل کام فوجی نوعیت کا تھا اور اب سویلین نوعیت کا ہے ۔‘‘
عراق میں امریکی فورسز کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کویت تک رات بھر کا سفر ایک علامتی کانوائے تھا۔ سات برس پہلے جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس وقت بھی یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ امریکی فوجی یونٹ کے دو روزہ سفر کو آخری پیٹرول کا نام دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس سفر کے دوران کوئی حملہ نہیں ہوا، تا ہم سپاہی پورے راستے چوکنے رہے۔