اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ —
صدر براک اوباما نے عراق سے بیشتر امریکی فوجوں کو واپس بلا لیا اور بغداد میں امریکی سفارتکاروں کی تعداد میں کمی کر دی ۔ یوں ان کے پیشرو صدر جارج ڈبلو بش کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم باب ختم ہو گیا۔
عراق کی جنگ کے آغاز پر صدر جارج ڈبلو بش نے کہا تھا ’’اس وقت، امریکی اور اتحادی فوجیں عراق کو غیر مسلح کرنے ، اس کے لوگوں کو آزاد کرنے، اور دنیا کو سنگین خطرے سے بچانے کے لیے فوجی کارروائی کے ابتدائی مرحلوں میں ہیں۔‘‘
دس برس ہوئے جب صدر بُش نے عراق میں فوجیں بھیجی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہاں کیا ہو رہا ہے، اس پر واشنگٹن کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔
شیعہ وزیرِ اعظم نوری المالکی نے اپنے سنّی مخالفین پر پوری طرح برتری حاصل کر لی ہے۔ جانز ہاپکنس یونیورسٹی کی پروفیسر روتھ وجووڈ کہتی ہیں کہ مالکی کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ سُنیوں کو اس طرح دبانے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔’’وہاں اب کوئی نہیں ہے جس سے انہیں کوئی پریشانی ہو ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ مالکی ایسے عراق سے بالکل مطمئن ہیں جہاں مسلسل کشمکش جاری ہے، جہاں سُنی جلد یا بدیر اپنا انتقام لینے کے ذرائع حاصل کر لیں گے۔ لیکن فی الحال عراق پر مکمل طور سے شیعوں کی عملداری ہے ۔‘‘
وجووڈ کہتی ہیں کہ امریکیوں کے چلے جانے کے بعد، وزیرِ اعظم مالکی اب جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔’’میرے خیال میں جب ہم مکمل طور سے عراق سے نکل آئے ، اور اپنے پیچھے ایک خالی سفارت خانے کا ڈھانچہ چھوڑ دیا، تو مالکی نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ اب آپ جو چاہیں کریں ۔‘‘
خاص طور سے اپنے ہمسایے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے بارے میں روتھ وجووڈ کہتی ہیں’’میرا خیال ہے کہ مالکی پر ہمیشہ سے ایران کے ملاؤں کا بہت زیادہ اثر رہا ہے ۔ انھوں نے یہ بات چھپائی نہیں ہے ۔ اور نہ انہیں اس سلسلے میں کوئی پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔‘‘
اوباما انتظامیہ کے لیے جو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف پابندیوں پر عمل در آمد کرنا چاہتی ہے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور شام میں، ایران صدر بشا رالاسد کی حمایت کر رہا ہے جو اپنا اقتدار بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔
یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے تجزیہ کار اسٹیوو ہائڈمان کہتے ہیں کہ بغداد نے شام میں امریکہ کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔’’عراق نے اپنی فضائی حدود میں ایران سے پروازوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ امریکہ انہیں روکنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ اسد کی حکومت کو دوسری اقسام کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ عراق کے شیعہ شام کی حکومت کی مدد کے لیے عراق اور شام کی سرحد کے پار جا رہے ہیں اور عراقی حکومت نے اس طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
ہائڈمان کہتے ہیں کہ، ’’ہمسایہ ملکوں میں شام کی جنگ سےفرقہ وارانہ تقسیم اور زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے، جس کے ان ملکوں کے استحکام پر بڑے پریشان کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں عراق میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔‘‘
عراق کا تیل پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں جانے سے، امریکی کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی، عراقی حکومت اور شمال میں نیم خود مختار کردش لیڈروں کے درمیان سخت اختلافات موجود ہیں۔
عراق کی جنگ کے آغاز پر صدر جارج ڈبلو بش نے کہا تھا ’’اس وقت، امریکی اور اتحادی فوجیں عراق کو غیر مسلح کرنے ، اس کے لوگوں کو آزاد کرنے، اور دنیا کو سنگین خطرے سے بچانے کے لیے فوجی کارروائی کے ابتدائی مرحلوں میں ہیں۔‘‘
دس برس ہوئے جب صدر بُش نے عراق میں فوجیں بھیجی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہاں کیا ہو رہا ہے، اس پر واشنگٹن کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔
شیعہ وزیرِ اعظم نوری المالکی نے اپنے سنّی مخالفین پر پوری طرح برتری حاصل کر لی ہے۔ جانز ہاپکنس یونیورسٹی کی پروفیسر روتھ وجووڈ کہتی ہیں کہ مالکی کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ سُنیوں کو اس طرح دبانے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔’’وہاں اب کوئی نہیں ہے جس سے انہیں کوئی پریشانی ہو ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ مالکی ایسے عراق سے بالکل مطمئن ہیں جہاں مسلسل کشمکش جاری ہے، جہاں سُنی جلد یا بدیر اپنا انتقام لینے کے ذرائع حاصل کر لیں گے۔ لیکن فی الحال عراق پر مکمل طور سے شیعوں کی عملداری ہے ۔‘‘
وجووڈ کہتی ہیں کہ امریکیوں کے چلے جانے کے بعد، وزیرِ اعظم مالکی اب جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔’’میرے خیال میں جب ہم مکمل طور سے عراق سے نکل آئے ، اور اپنے پیچھے ایک خالی سفارت خانے کا ڈھانچہ چھوڑ دیا، تو مالکی نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ اب آپ جو چاہیں کریں ۔‘‘
خاص طور سے اپنے ہمسایے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے بارے میں روتھ وجووڈ کہتی ہیں’’میرا خیال ہے کہ مالکی پر ہمیشہ سے ایران کے ملاؤں کا بہت زیادہ اثر رہا ہے ۔ انھوں نے یہ بات چھپائی نہیں ہے ۔ اور نہ انہیں اس سلسلے میں کوئی پریشانی اٹھانی پڑی ہے۔‘‘
اوباما انتظامیہ کے لیے جو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے خلاف پابندیوں پر عمل در آمد کرنا چاہتی ہے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور شام میں، ایران صدر بشا رالاسد کی حمایت کر رہا ہے جو اپنا اقتدار بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔
یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے تجزیہ کار اسٹیوو ہائڈمان کہتے ہیں کہ بغداد نے شام میں امریکہ کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔’’عراق نے اپنی فضائی حدود میں ایران سے پروازوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ امریکہ انہیں روکنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ اسد کی حکومت کو دوسری اقسام کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ عراق کے شیعہ شام کی حکومت کی مدد کے لیے عراق اور شام کی سرحد کے پار جا رہے ہیں اور عراقی حکومت نے اس طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
ہائڈمان کہتے ہیں کہ، ’’ہمسایہ ملکوں میں شام کی جنگ سےفرقہ وارانہ تقسیم اور زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے، جس کے ان ملکوں کے استحکام پر بڑے پریشان کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شام میں خانہ جنگی کے نتیجے میں عراق میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔‘‘
عراق کا تیل پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں جانے سے، امریکی کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی، عراقی حکومت اور شمال میں نیم خود مختار کردش لیڈروں کے درمیان سخت اختلافات موجود ہیں۔