رسائی کے لنکس

عراق: سابق وزیرِ خارجہ طارق عزیز کا جیل میں انتقال


فائل
فائل

روانی سے انگریزی بولنے والے طارق عزیز صدام حسین کے قریبی ساتھی اور مشیر تھے جو 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد سے صدام حکومت کے اہم اور نمایاں ترین کردار تھے۔

عراق کے سابق آمر حکمران صدام حسین کے دور میں ملک کے وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِاعظم رہنے والے طارق عزیز عراق کی ایک جیل میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 79 برس تھی۔

طارق عزیز نے 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے نتیجے میں صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے دو ہفتے بعد خود کو امریکی حکام کے سامنے پیش کردیا تھا۔

گرفتاری کے سات سال بعد 2010ء میں عراق کی سپریم کورٹ نے انہیں صدام حسین کے دور میں اسلامی جماعتوں پر مظالم ڈھانے کے الزام میں موت کی سزا سنائی تھی جس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

طارق عزیز کو عراق کے صوبے ذی قار کی ایک جیل میں قید رکھا گیا تھا جہاں وہ مسلسل صحت کی خرابی اور مناسب طبی سہولتوں کی عدم فراہمی کی شکایت کرتے رہے۔

ذی قار کے محکمۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر سعدی الماجد نے سابق وزیرِ خارجہ کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں دل کے شدید دورے کے بعد النصیریہ اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ جمعے کی دوپہر تین بجے انتقال کرگئے۔

ذی قار کے گورنر یحیٰ النصیری نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ضابطے کی کارروائی اور تحقیقات کے بعد طارق عزیز کا جسدِ خاکی ان کے لواحقین کے حوالے کردیا جائے گا۔

عمان میں مقیم سابق وزیرِ خارجہ کے بیٹے زید نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ گفتگو میں بتایا ہے کو جمعرات کو ان کی والدہ نے جیل میں والد سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے طبیعت کی خرابی کی شکایت کی تھی۔

زید نے الزام عائد کیا کہ ان کی والدہ نے جیل انتظامیہ سے والد کو اسپتال منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جسے انتظامیہ نے مسترد کردیا تھا۔

روانی سے انگریزی بولنے والے طارق عزیز صدام حسین کے قریبی ساتھی اور مشیر تھے جو 1991ء کی خلیجی جنگ کے بعد سے صدام حکومت کے اہم اور نمایاں ترین کردار تھے۔

صدام حسین سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر عموماً بیرونِ ملک سفر سے گریز کرتے تھے جس کے باعث عراق کی بین الاقوامی فورمز اور بیرونی دوروں میں نمائندگی کی ذمہ داری کئی برسوں تک طارق عزیز کے کندھوں پر رہی۔

انہوں نے خلیجی جنگ میں امریکہ کے حملے کے بعد کویت سے عراقی فوج کے انخلا اور عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے مبینہ ہتھیاروں کے اقوامِ متحدہ کی جانب سے معائنے کے کئی سال جاری رہنے والے تنازع کے حل کی سفارتی کوششوں میں اپنی حکومت کی نمائندگی کی تھی۔

سنہ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد بھی وہ اس حملے کے خلاف سفارتی محاذ پر سرگرم رہے اور سقوطِ بغداد سے قبل تک روزانہ کی بنیاد پر صحافیوں کو عراقی فوج کی "کامیابیوں" پر بریفنگ دیا کرتے تھے۔

طارق عزیز عقیدے کے اعتبار سے کلدانی عیسائی تھے جو شمالی عراق کے شہر موصل کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔

وہ 1950ء کی دہائی سے صدام حسین کے قریب تھے جب دونوں نوجوان اس وقت کی کالعدم جماعت 'بعث' سے منسلک تھے جو برطانیہ کی حمایت یافتہ عراقی بادشاہت کا تختہ الٹنے کے لیے سرگرم تھی۔

عراق میں فوجی انقلاب کے بعد طارق عزیز کو 1970ء کی دہائی میں ملک کا وزیرِ اطلاعات مقرر کیا گیا تھا جب کہ 1977ء میں وہ 'بعث پارٹی' کے اعلیٰ ترین عہدیداران پر مشتمل 'انقلابی کمانڈ کونسل' کے رکن بنے تھے جو عراق کی حکومت چلاتی تھی۔

صدام حسین نے انہیں 1979ء میں اپنا نائب وزیرِاعظم اور بعد ازاں 1983ء میں وزیرِ خارجہ مقرر کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG