عراق کے قدیم شہر حضر سے شدت پسند گروپ داعش کے جنگجوؤں کو نکال باہر کرنے کے بعد رواں ہفتہ عراقی ملیشیا کو یہ معلوم ہوا ہے کہ داعش نے دو ہزار سال قدیم نوادرات کو تباہ کر دیا ہے۔
عراق کی "پاپولر موبیلائزیشن ملیشیا" یعنی ’پی ایم ایف‘ کی ترجمان مروہ رشید نے کہا کہ "مجسمے اور کندہ تصاویر کو تباہ کر دیا گیا لیکن حضر کی سلطنت کی دیوار اور ستون اب کھڑے ہیں۔"
یہ شعیہ ملیشیا فورس شمالی عراق میں موصل کے شمال میں واقع دیہات سے داعش کا صفایا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "(قدیم) سلطنت (کے کھنڈرات) کی دیواروں میں سوراخ ہیں اور انہیں کھرچ دیا گیا ہے۔"
’’پی ایم ایف‘‘ نے تین ہفتوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد موصل کے جنوب مغرب میں واقع اس تاریخی شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
تاریخی طور پر اس قدیم شہر کو حضر کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ شہر یونیسکو کی عالمی ورثہ کی فہرست میں بھی شامل ہے اور اسے عراق کی آثار قدیمہ کا زیور سمجھا جاتا ہے۔
اسے پہلی عرب سلطنت کا دارالحکومت بھی خیال کیا جاتا ہے یہ وسیع قلعہ بند شہر دو یا تین قبل مسیح میں قائم کیا گیا تھا۔
اس قدیم ورثہ کو کئی دہائیوں تک بالکل نہیں چھیڑا گیا تھا لیکن اپریل 2015ء میں داعش نے اس پر کنٹرول حاصل کر کے اس کے نوادرات کو تباہ کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس پر قبضے کے بعد داعش کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک وڈیو میں داعش کے جنگجوؤں کو ہتھوڑوں کے ساتھ مجسموں کو توڑتے اور قدیم دیواروں پر آویزاں تصاویر اور نوادرات کو رائفلوں کے ساتھ تباہ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے اس تباہی کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے خطے کے سیاسی و مذہبی راہنماؤں پر اس کا نوٹس لینے پر زور دیا ہے۔
’’پی ایم ایف‘‘ کا کہنا ہے کہ داعش نے ان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اس قدیم مقام کے مشرقی دروازوں پر بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں۔ انجینئرز پر مشتمل ٹیمیں یہاں پر نصب بارودی سرنگیں صاف کرنے کے بعد عراق کے آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہاں ہونے والے نقصان کا جائزہ لینے کی اجازت دیں گے۔
شدت پسند گروپ داعش نے 2014ء کے وسط سے عراق و شام میں قدیم کھنڈر اور مذہبی تاریخٰی عمارتوں کو اس لیے تباہ کر دیا کیونکہ وہ انہیں مذہبی طور پر جائز خیال نہیں کرتے ہیں۔
عراق کی قدیم ورثہ سے متعلق تنظیم کے صدر سرمد علوان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں قدیم مقامات کو پہنچنے والا نقصان کا ابھی جائزہ لینا باقی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ابتدائی جائزہ کے مطابق حضر شہر کو پہنچنے والا نقصان تکلیف دہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ "حضر کے نوادرات کو پہنچنے والا نقصان عراق اور بین الاقوامی برادری کے لیے بہت زیادہ ہے۔"