عراقی کرد رہنما، مسعود بارزانی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ شمالی کرد علاقے کے خود مختار علاقے کے صدر کے عہدے سے دست بردار ہو رہے ہیں، جب کہ وہ اپنے فرائض کُرد وزیر اعظم، پارلیمان اور عدالت کے حوالے کر رہے ہیں۔
اتوار کے روز پارلیمان کو ایک تحریر کردہ خط میں، بارزانی نے کہا کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے، جب کہ اُن کی میعاد یکم نومبر کو مکمل ہو رہی ہے۔
پارلیمان نے پہلے ہی بارزانی کی سرکاری سرگرمیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا؛ اور ہفتے کو کہا تھا کہ اپنے اگلے اجلاس میں بارزانی کی جانب سے لکھا گیا بیان پڑھ کر سنایا جائے گا۔
حالانکہ آزادی کے ریفرنڈم میں اُنھیں اکثریتِ رائے سے ''ہاں'' میں ووٹ پڑا تھا، بارزانی کو سخت مخالفت سے واسطہ اُس وقت پڑا جب عراقی کی وفاقی افواج نے کرکوک شہر کے قریب علاقہ واگزار کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے ریفرینڈم کو غیر قانونی قرار دیا تھا؛ اور اس کا جواب دیتے ہوئے، اُنھوں نے کردوں کے کنٹرول والے متنازع علاقوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے فوج کشی کی تھی۔
حالیہ دِنوں کے دوران، عراق کے کُردستان کے علاقے کی حکومت نے ریفرنڈم کے نتائج کو منجمد کرنے اور وفاقی حکومت کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن عبادی نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔
ایک بیان میں عبادی نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت صرف تبھی رضامند ہوگی اگر ریفرنڈم کو معطل کیا جائے اور ملک کے آئین کی حرمت یقینی بنائی جائے۔
سال 21014 میں یہ زیادہ تر علاقہ بغداد کی حکمرانی میں تھا جو اب عراقی افواج نے واگزار کرایا ہے، جب میں داعش کے شدت پسند علاقے میں گھس آئے۔ کرد پیش مرگہ کے لڑاکا اور اتحادی افواج نے یہ خطہ قبضے میں کر لیا تھا، اور اِن پر تب سے کرد خطے کا قبضہ تھا۔
عراقی فوج اور کرد اقلیت کئی ہفتوں سے آپس میں لڑتے رہے ہیں، جمعے کے روز تک ہونے والی زیادہ تر چھوٹی سطح کی تھیں، جس کے بعد جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ بغیر کسی خاص مزاحمت کے کُرد افواج نے یہ علاقہ واپس کر دیا ہے۔