ایسے میں جب موصل کی لڑائی میں پیش رفت بتائی جا رہی ہے، عراق میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مبصرین نے داعش کے ہاتھوں سولین آبادی کے خلاف بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کا ثبوت برآمد کرلیا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں اور اذیت، خواتین اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، لڑاکے اور خودکش بم حملہ آوروں ببابے کے لیے بچوں کی بھرتی شامل ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ سولین آبادی کی لاکھوں کی تعداد میں زبردستی بے دخلی اور داعش کے ہاتھوں اُن کا انسانی ڈھال کے طور پر استعمال جاری ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، زید رعد الحسین نے کہا ہے کہ ’’موصل میں انسانی تکالیف کا اندازہ اور عراق میں داعش کے علاقوں کے اندر ہونے والی زیادتیاں پریشان کُن اور ناقابلِ برداشت ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ زخمیوں اور متاثرین کے حقوق و ضروریات پوری کی جائیں، فوری اقدام لازم ہے۔
ہائی کمشنر کی خاتون ترجمان، روینا شمداسانی نے کہا ہے کہ داعش نے بدھ کے روز ایک وڈیو پوسٹ کی ہے جس میں 10 اور 14 برس کی عمر کے چار بچوں کی دل گداز تصاویر کشی کی گئی ہے، جنھیں گولیو کا نشانہ بنا کر ہلاک کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اِن بچوں میں سے ایک ازبکستان، ایک روس جب کہ دو کا تعلق عراق سے ہے۔ وہ چار افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہیں، جن پر عراقی سکیورڑی فورسز (آئی ایس ایف) اور پیش مرگہ کے لیے جاسوسی کا الزام تھا۔
وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مرنے والے یکے بعد دیگرے قریبی دریاہ میں گرتے جا رہے ہیں۔