عراق و شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے زیر قبضہ علاقوں میں کاروباری لین دین کے لیے اپنی کرنسی جاری کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق "سونے کے دنیار" کا سکہ جاری کیا گیا ہے جو 21 قیراط سونے کا بنا ہوا ہے اور اس کا وزن 4.25 گرام بتایا جاتا ہے اور یہ سکہ شامی پاؤنڈ، عراقی دینار اور امریکہ ڈالر کی جگہ استعمال ہو گا۔
شامی شہر دیر ازور میں سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ داعش نے تیل کے تاجروں سے کہا ہے کہ وہ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں کاروبار کے لیے نئی کرنسی کو استعمال کریں۔
داعش کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تیل کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے۔
ایک شامی ماہر معیشت خورشید علیکا کا کہنا ہے کہ "یہ داعش کی طرف سے اپنے آپ کو منوانے کی ایک کوشش ہے"۔ انھوں ںے مزید کہا کہ "وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی تنظیم بین الاقوامی منڈی میں اپنی معیشت کو مسلط کر سکتی ہے"۔
مقامی افراد کو اس بات کا خدشہ ہے کہ سونے کی سکے ان پر فوری طور پر اثر انداز ہوں گے اور مقامی معیشت بہت زیادہ افراط زر کا شکار ہو جائے گی۔
شام میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار حسین عیسیٰ کا کہنا ہے کہ "داعش کی طرف سے اپنی کرنسی کے استعمال سے متعلق اعلان کے بعد (اشیاء) کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں"۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تاجر دو ہفتوں سے سونے کی کرنسی کا استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کی طرف سے سونے کی کرنسی کے استعمال سے اس کی معیشت مضبوط نہیں ہو گی اور نا ہی اس سے علاقائی یا عالمی معیشتیں متاثر ہوں گی۔
داعش کی طرف طرف 2015 میں جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں کہا تھا گیا کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں سونے کے سکے استعمال کرے گی۔ اس سے قبل اس شدت پسند تنظیم نے کاغذی نوٹ جاری کیے تاہم یہ مارکیٹ میں کوئی جگہ نا بنا سکے۔
علیکا کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ کو اپنی نئی کرنسی کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایسے سکے جاری کرنے کے لیے بڑی مقدار میں سونے کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "داعش کی معیشت جنگی نوعیت کی ہے اور اس کی خام سونا حاصل کرنے کی صلاحیت کا زیادہ انحصار اس کی طرف سے مزید علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے پر ہے"۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران اس انتہا پسند تنظیم کو شام اور عراق میں کئی علاقوں میں پسپا ہونا پڑا۔