اسلامی خلافت کے دوبارہ قیام کی غرض سے، عراق اور شام کے میدانِ جنگ میں لڑنے والا داعش کا دہشت گرد گروہ ایک اور معرکہ سر کرنے کی جانب آگے بڑھ رہا ہے۔ اِس بار، وہ سعودی شاہی خاندان سے ٹکر لینا چاہتا ہے، جس کا اقتدار ایک طویل عرصے سے جاری و ساری ہے۔
یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، جیف سیلڈن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ بظاہر داعش کے لیے سعودی عرب کو نشانہ بنانا غیرمتوقع لگتا ہے۔ عراق، شام اور لیبیا کے ملکوں کے برعکس، یہ ناکام ریاست نہیں ہے۔ دولت اسلامیہ کی قیادت کی طرح، سعودی عرب کے حکمراں سنی مسلک کے ماننے والے ہیں۔
باوجود اِس کے، انسداد دہشت گردی کے اہل کار، سابق سفارت کار اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب سے سعودی عرب کو لاحق خطرے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
عراق میں امریکہ کے سابق سفیر، رائن کروکر نے اسکائب کے ذریعے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’اِن کے عزائم رمادی پر اکتفا کرنا نہیں ہے‘۔ اُن کا اشارہ داعش کی طرف سے عراق کے صوبہٴانبار کے دارلحکومت کو فتح کرنے کی جانب ہے۔
بقول اُن کے، ’جس بات کا وہ ارادہ رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے اندر داخل ہوجائیں اور مکہ اور مدینہ کے متبرک شہروں پر قبضہ حاصل کریں، جنھین وہ اپنی خلافت کا دارالحکومت بنانے کے خواہاں ہیں‘۔
اِس دہشت گرد گروہ کے یہ تازہ عزائم چند ہی ہفتے قبل سامنے آئے، ایسے میں جب دولت اسلامیہ نے مشرقی سعودی عرب میں شیعہ مساجد کو ہدف بناتے ہوئے دو خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بائیس اور 29 مئی کے اِن حملوں میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ساتھ ہی دولت اسلامیہ کی سعودی شاخ کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں بدلہ لینے پر زور دیا ہے۔
امریکہ میں قائم ’سائٹ‘ نامی مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق، ریکارڈ کیےگئے اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’آپ سب کو اکٹھا ہونا چاہیئے، تاکہ ظالموں کے تخت کو آگ لگائی جا سکے‘۔
امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ’یہ خطرہ داعش کے پروپیگنڈا کی ایک کڑی ہے، جس نے اکثر و بیشتر سعودی حکام کے خلاف حملوں پر اکسانے کی کوشش جاری رکھی ہے، جو سعودی پولیس اور مغربی شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کرتا رہا ہے’۔
انسداد دہشت گردی کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ گروپ کی جانب سے سعودی عرب کے اندر دہشت گرد شاخیں قائم کرنے کی کوششیں اُن کی حکمت عملی کے عین مطابق ہوں گی‘۔
تاہم، اس بات پر سوال اٹھ سکتا ہے، آیا داعش کے پاس اتنی سکت ہے کہ وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکے۔
گروہ سے ہمدردی رکھنے والوں پر سعودی عرب نے شدید دباؤ جاری رکھا ہے۔ سعودی عرب نے اپریل میں 93 مشتبہ افراد کو پکڑنے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے 65 سعودی شہری ہیں۔
ہارلین گمبھیر انسداد دہشت گردی کے تجزیہ کار ہیں اور ’انسٹی ٹیوٹ فور دی اسٹڈی آف وار‘ سے وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’ویسے تو سعودی عرب میں داعش کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم، وہ ہلاکت خیز اور تباہ کُن حملے کر رہی ہے، جن کے باعث فرقہ وارانہ تناؤ بھڑکتا ہو اور داخلی انتشار میں اضافہ ہوتا ہو‘۔
سعودی عرب انتہاپسند گروہوں کی زرخیز آماجگاہ خیال کی جاتی ہے، جن میں دولت اسلامیہ میں شامل ہے، جو جہادی بھرتی کرنے میں ملوث رہے ہیں۔