حکومت کی فضائی کارروائی کے نتیجے میں ریڈیو نشریات بند ہونے کے بعد، داعش نے ایک بار پھر افغانستان کے کشیدگی کے شکار علاقے میں ریڈیو کی نشریات شروع کردی ہیں۔
ریڈیو چینل جو پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب پہاڑیوں میں نصب دور دراز موبائل ٹرانسمیٹر کے ذریعے نئے پروگرام نشر کرتا ہے، دوبارہ میدان میں آچکا ہے۔
افغانستان کی دونوں سرکاری زبانوں، پشتو اور دری کے علاوہ اب یہ ریڈیو چینل عربی اور پنجابی زبانوں میں بھی نئے پروگرام نشر کر رہا ہے۔
پروگرام میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ داعش میں شمولیت اختیار کریں اور اپنے مذہبی جذبات کو پروان چڑھائیں۔
داعش کی پیش پناہی میں چلنے والے اِس ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ’خلافت کی آواز‘ نے گذشتہ سال پروگرام نشر کرنا شروع کیے تھے، جو مقامی لوگوں میں دہشت پھیلنے کا سبب بنے تھے جس سے داعش کا پروپیگنڈا پیش کیا جاتا تھا۔
فروری میں، افغان حکام نے بتایا تھا امریکہ کی مدد سے فضائی کارروائیاں کی گئیں ہیں، جن کے نتیجے میں داعش کا ٹرانسمٹر تباہ کیا گیا، ساتھ ہی انٹرنیٹ کے وسائل اور دیگر تنصیبات تباہ کی گئیں۔
ننگرہار کے اچین ضلعے کے گورنر، حاجی غالب مجاہد نے ’وائس آف امریکہ‘ کو اس بات کی تصدیق کی کہ داعش کی نشریات روزانہ ایک گھنٹہ صبح اور ڈیڑھ گھنٹہ شام جاری رہتی ہیں۔
یہ نشریات صوبے کے دہ بالا، غنی خیل اور اچین کے اضلاع میں سنی جاسکتی ہیں۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ دہشت زدہ ہیں۔
عبیداللہ کئی افغانوں کی طرح، نشریات سنتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’یہ ریڈیو پروگرام حکومت مخالف اور عوام مخالف ہیں، جن سے غلط تاثر ابھرتا ہے‘‘۔
یہ واضح نہیں آیا افغان حکومت آگے کیا کرنے والی ہے۔ صوبائی اطلاعات اور ثقافت کے سربراہ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ محکمہ افغان ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی اس معاملے پر نظرداری کا ذمہ دار ہے۔
سامعین کی شکایتوں کے باوجود، ننگرہار گورنر کے ترجمان، عطااللہ خوغیانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ حکومت کو اِن نشریات کے بارے میں کوئی علم نہیں۔
بقول اُن کے، ’’ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ یہ (ریڈیو) پھر سے نشریات پیش کر رہا ہے۔ اس ریڈیو کو بند کردیا گیا تھا اور اب یہ موجود نہیں‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ داعش پروپیگنڈہ کے نئے حربے اپنا رہا ہے، تاکہ زیادہ افراد کو بھرتی کیا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں، اگر ریڈیو نے پھر نشریات شروع کیں تو یہ بہت جلد بند کردی جائیں گی‘‘۔
ربیکا زمرمن ’رینڈ کارپوریشن‘ میں ملٹری پالیسی کی تجزیہ کار ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ داعش کی جانب سے منطقی قدم ہے، تاکہ لوگوں تک رسائی کے ذرائع پر زیادہ توانائی صرف کی جائے‘‘۔
داعش نے صوبہٴ ننگرہار کے کچھ حصوں میں اپنے نقش جمائے ہیں، جہاں اُس کے عسکریت پسندوں نے افغان سکیورٹی کی چوکیوں پر کئی حملے کیے ہیں۔ افغان حکومت نے کہا ہے کہ وہ ننگرہار میں داعش کے خلاف خاصی کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
حکومت اور نیٹو افواج نے حالیہ دنوں داعش کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، اور کچھ علاقوں کو داعش کے لڑاکوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔