کئی حالیہ عالمی واقعات کی طرح پیرس کے دہشت گرد حملوں میں بھی سوشل میڈیا 'سماجی رابطے کی ویب سائٹیں' اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان حملوں کی ذمہ داری تو قبول نہیں کی گئی مگر داعش کے ایک پیروکار نے ٹوئیٹر پر اس خونی حملے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس نے لکھا ’’پیرس جل رہا ہے‘‘ اور #Parisisburning کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔
یہ ہیش ٹیگ استعمال کرکے داعش کے دیگر پیروکار بھی حملوں پر فخر کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ہیش ٹیگ کے عربی ترجمے والی ٹوئیٹس میں حملے کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ داعش کے حامی حملے کی حمایت میں اس کی تعریف کرنے کے لیے #Prayforparis ہیش ٹیگ بھی استعمال کر رہے ہیں۔
وہ لوگ بھی #Prayforparis استعمال کر رہے ہیں جو متاثرین کی مدد، اہل خانہ اور دوستوں کو تلاش کر رہے ہیں اور اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔
فیس بک نے اپنی ویب سائیٹ پر ایک سیفٹی چیک فعال کیا ہے جس میں پیرس کے لوگ خود کو محفوظ ظاہر کر سکتے ہیں جسے اس ویب سائیٹ پر ان کے دوست دیکھ سکتے ہیں۔
امریکی بینڈ ’ایگلز آف ڈیتھ میٹل‘ بھی فیس بک صفحے پر اپنے شائقین سے رابطے میں ہے۔ دیگر حملوں کے علاوہ پیرس میں اس بینڈ کے کانسرٹ پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔
ادھر فرانس کے صدر بھی ملک کے شہریوں کو تازہ ترین صورتحال سے مطلع کرنے کے لیے ٹوئیٹر استعمال کر رہے ہیں۔
ٹیلی وژن پر خطاب کی بجائے بہت سے عالمی رہنماؤں نے ٹوئیٹر کے ذریعے حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔ ان میں برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، یورپی یونین کے سربراہ جین کلاڈ جنکر اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جین سٹولٹنبرگ شامل ہیں۔
ان سب نے گہرے صدمے اور فرانس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
ہلیری کلنٹن، مارکو روبیو، ٹیڈ کروز اور بین کارسن سمیت امریکہ میں صدراتی نامزدگی کے کئی امیدواروں نے بھی ٹوئیٹر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔