امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا کہ گزشتہ موسم سرما میں شمالی عراق پر داعش کا حملہ ملک کے حریف دھڑوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے اور اس کی پیش قدمی روکنے کے لیے نئی توانائی لانے کا باعث بنا۔
آئندہ ہفتے امریکی صدر براک اوباما اور عراقی وزیر اعظم حیدر العابدی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات سے پہلے جو بائیڈن نے ایک حوصلہ افزا بیان میں کہا کہ آٹھ ماہ قبل عراق اور شام میں کئی علاقوں پر قبضے اور نام نہاد ’خلافت‘ کے اعلان کے بعد اب عراق کو بنیاد پرست شدت پسند گروہ کے خلاف برتری حاصل ہو گئی ہے۔
بائیڈن نے کہا اس وقت دنیا نے دیکھا کہ عراق کی فوج بکھر گئی تھی، عراقی حکومت کے اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا اور داعش نے مقبوضہ علاقوں میں سفاکانہ کارروائیاں کیں۔
اب بھی عراق کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا ایک تاثر موجود ہے لیکن ان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ عراق میں داعش کی پیش قدمی روک دی گئی ہے اور کئی علاقوں میں واضح طور پر انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ "انتہائی غیر متوقع طور پر داعش نے عراق کو اپنی حکومت بنانے میں مدد کی۔ داعش جو عراق کے ٹکڑے کر کے ایک 'خلافت' قائم کرنا چاہتی تھی اسی نے درحقیقت عراقیوں کو متحد کر دیا"۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں بائیڈن نے عراق کے سنی، شیعہ اور کرد دھڑوں کے رہنماؤں کی مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے، بجٹ پر اتفاق اور ہزاروں سنی جنگجوؤں کو متحرک کرنے پر تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ عراقی فورسز نے جنگ کے میدان میں اتحادی فضائی کارروائیوں کی مدد سے پیش رفت حاصل کی ہے۔ ان میں 1,300 فضائی کارروائیاں تنہا امریکی فوج نے کیں۔
بائیڈن نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ داعش نے موصل ڈیم، کوہِ سنجار اور تکریت شہر سمیت وسیع علاقے کو کھو دیا ہے جو ایک وقت اس کے قبضے میں تھا۔
عراقی سکیورٹی فورسز نے اس شدت پسند گروہ کے خلاف تکریت میں فتح حاصل کرنے کے بعد صوبہ انبار کے سنی مسلم اکثریت والے علاقے میں نئی کارروائی کا آغاز کیا ہے۔
شدت پسندوں نے گزشتہ سال جون میں تکریت سمیت سنی آبادی کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
بائیڈن نے عراقی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ پیچیدہ فرقہ وارانہ تقسیم کے تناظر میں آپسی مفاہمت کو جاری رکھیں اور اس سیاسی ضرورت کی اہمیت کو فراموش نہ کریں جس کے تحت وہ یہاں تک پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ "اب بھی ایک طویل جنگ کا سامنا ہے۔ میں یہاں ضرورت سے زیادہ امید افزا تصویر نہیں کھینچنا چاہتا، تاہم (میں یہ ضرور کہوں گا کہ) داعش کے ناقابل شکست ہونے کے تاثر کا خاتمہ ہو گیا ہے۔"