شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی نمائش پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
البیان ریڈیو اسٹیشن پر ایک آڈیو نے پیغام میں’داعش‘ کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اس کے دو جنگجوؤں نے اتوار کو نمائش پر حملہ کیا۔
لیکن بیان میں اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’داعش‘ نے اس سے قبل مغرب میں تو دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس تنظیم نے امریکہ میں کسی حملہ کی ذمہ داری قبول کی۔
ڈیلس میں ہونے والی نمائش پر حملہ کرنے والے دونوں افراد پولیس کی جوابی کارروائی میں مارے گئے، ان حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے شبے میں زیر تفتیش رہ چکا ہے۔
ادھر حکام ٹیکساس میں ایک تقریب کے باہر سکیورٹی گاڑد پر گولی چلانے پر ہلاک کیے گئے دو مشتبہ افراد کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ آور ایلٹن سمپسن اور نادر صوفی اریزونا سے تعلق رکھتے تھے اور ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔
عدالتی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ سمپسن 2006ء سے زیر نگرانی تھا اور 2010ء میں اسے صومالیہ میں جہاد میں جانے کی خواہش سے متعلق ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
ایف بی آئی کے ایجنٹس اور پولیس فینکس میں ان دونوں کے گھر کی تلاشی لی اور اس دوران رہائشی اپارٹمنٹس کے دیگر باسیوں کو کئی گھنٹوں کے لیے یہاں سے باہر رکھا گیا۔
ان دونوں افراد کے بارے میں بتایا گیا کہ انھوں نے ڈیلس شہر کے قریب واقع گارلینڈ کے علاقے میں منعقدہ ایک تقریب کے باہر تعینات سکیورٹی گارڈز پر فائرنگ کی تھی۔ اس تقریب میں پیغمبر اسلام کے تصویری خاکوں کی نمائش ہو رہی تھی۔
فائرنگ کا نشانہ بننے والے سکیورٹی گارڈ کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
مبینہ حملہ آوروں کو پولیس نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
گارلینڈ پولیس کے ترجمان جوئی ہارن کا کہنا ہے کہ گو کہ حملے کے محرکات تاحال غیر واضح ہیں لیکن "یقیناً یہ لوگوں پر فائرنگ کرنے کے لیے وہاں آئے تھے۔"
پولیس کو حملہ آوروں کو اسلحہ اور دیگر سامان ملا ہے لیکن اس میں سے کوئی بم برآمد نہیں ہوا جس کے بارے میں اولاً شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
صدر براک اوباما کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے اور وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا تھا کہ " ہم نے دیکھا کہ انتہا پسند اپنے تشدد کی توجیہہ کے لیے جارحیت کو استعمال کر رہے ہیں، نہ صرف اس ملک میں بلکہ پوری دنیا میں۔ صدر کے ذہن میں ایسی کوئی جواز موجود نہیں جو تشدد کا جواز پیدا کرے۔"