شدت پسند گروپ داعش نے پیر کو جنوبی یمن میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں کم از کم 42 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بم دھماکوں سے ساحلی شہر المکلا اور اس کے مضافات میں سکیورٹی فورسز کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب فوجی روزہ افطار کر رہے تھے۔
المکلا رواں سال اپریل تک القاعدہ کے شدت پسندوں کے زیر تسلط رہا جسے بعد ازاں حکومت نواز فورسز نے واگزار کروا لیا تھا۔
یمن میں حالیہ برسوں میں پایا جانے والا عدم استحکام بشمول موجودہ حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان تنازع سے شدت پسند گروپوں کو ملک کے مختلف حصوں میں اپنے قدم جمانے اور حملے کرنے کا موقع ملا ہے۔
اقوام متحدہ کی زیر قیادت یمن میں ایک نئی متحدہ حکومت کے قیام کے لیے ہونے والے امن مذاکرات تاحال ثمر بار نہیں ہو سکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اتوار کو یمن کی حکومت اور حوثیوں کے وفود سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ وہ "صورتحال میں مزید خرابی سے بچیں۔"
بان کی مون کے یمن کے لیے نمائندے اسماعیل ولد شیخ احمد نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس ضمن میں گزشتہ دو ہفتوں میں پیش رفت سست رہی ہے، لیکن بغیر کسی معاہدے کے گزرنے والا ہر دن " ملک کی تکالیف میں بلا ضرورت اضافہ کرے گا۔"