افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار مارے گئے جبکہ 24 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے یہ ایک بڑی کارروائی ہے جس میں سکیورٹی فورسز کو ایک بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان کی فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے ڈائرکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ کارروائی دریائے کنڑ اور افغان سرحد کے درمیان کے علاقے میں ٹھکانےبنائے دہشتگرد گروہوں کی ہے۔ یہاں باجوڑ سے بھاگنے والے مولوی فقیر اور قاری ضیا کے ساتھ ساتھ سوات کی تحریک طالبان پاکستان کی قیادت نے بھی پناہ لے رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘‘ جہاں تک باجوڑ اور مہمند ایجنسی کا تعلق ہے یہاں قصہ باقی علاقوں سے ذدا مختلف ہے۔ یہاں پر جو دہشتگرد بارڈر سےآتے ہیں ان پر ہمارا مکمل کنٹرول نہیں ہو پا رہا ہے اور اس وجہ سے ہم ایک مشکل کا شکار ہیں’’
میجر جنرل اطہر عباس اور خیبرپختونخواہ کے سابق چیف سیکریٹری اور تجزیہ کار خالد عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کسی علاقے کو عسکریت پسندی سے مکمل صاف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فوجی کارروائی کے بعد وہاں سیاسی اور ترقیاتی عمل شروع کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاسی عمل شروع نہیں ہوگا پائیدار امن نہیں آسکتا۔
پروگرام ان دا نیوز میں اسد حسن کے ساتھ ان کے انٹرویو کی تفصیل اس آڈیو میں سماعت فرمائیے۔