اسرائیل نے فلسطین اور عالمی اداروں کی تنقید کے باوجود یروشلم کے نواحی فلسطینی علاقے میں عمارتوں اور گھروں کو مسمار کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
پیر کو جنوبی یروشلم کے قریب فلسطینی گاؤں سربحر کے علاقے میں سرحدی باڑ کے قریب کی گئی کارروائی میں گھروں اور عمارتوں کو مسمار کیا گیا۔
بھاری مشینری جس میں بلڈوزرز اور کرینیں بھی شامل تھیں اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ہمراہ علاقے میں پہنچ گئے اور عمارتوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسرائیل نے اس علاقے پر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔
حکام کے مطابق یہ کارروائی اسرائیل کی سپریم کورٹ کے حکم پر کی جا رہی ہے، جس میں عدالت نے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف جمعے تک کارروائی مکمل کرنے کا پابند کیا ہے۔
فلسطینی حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی اس کارروائی سے اسے موقع ملے گا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں مزید گھروں کو مسمار کرنے کے لیے اپنی من مانی کر سکے۔
مسمار کیے گئے گھروں کے مالکان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تعمیرات کی اجازت فلسطینی حکام سے لی تھی۔ ان کے بقول اس کارروائی سے بہت سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔
اسرائیل کی کارروائی پر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے یروشلم کے مستقبل سے متعلق غیر یقینی میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
یروشلم میں لگ بھگ پانچ لاکھ اسرائیلی اور تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور ان کے یہاں متعدد مقدس مقامات ہیں۔
علاقے کے ایک کمیونٹی لیڈر حمادا نے بتایا کہ پیر کی صبح اسرائیلی اہل کار جنہیں سیکورٹی فورسز کی بھی مدد حاصل تھی۔ انہوں نے زبردستی لوگوں کو عمارتوں اور گھروں سے باہر نکال کر انہیں مسمار کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد نصب کیا۔
یہ گاؤں جغرافیائی لحاظ سے جنوبی یروشلم اور مغربی کنارے کے وسط میں واقع ہے۔ اس کا کچھ حصہ اسرائیلی بلدیہ کے کنٹرول میں نہیں۔ تاہم اسرائیل اس گاؤں کی مختلف عمارتوں اور گھروں کو تجاوزات سمجھتا ہے۔
فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، جس میں اسرائیل کی سپریم کورٹ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ گھروں کو مسمار کرنے کی اجازت دینے کی آڑ میں اسرائیل کو مزید مداخلت کی اجازت دے رہی ہے۔
اسرائیلی حکام کی اس کارروائی کو رفاعی اداروں، فلسطینی حکام اور اسرائیل کی جانب سے فلمبند بھی کیا گیا۔
خیال رہے کہ امریکہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے تجاویز پیش کر چکا ہے جنہیں فلسطینی حکام کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی۔ اس سلسلے میں امریکی صدر کے داماد اور ان کے مشیر جیرڈ کوشنر بھی خاصے سرگرم رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد سے اس تنازع کے دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔
اسرائیل ان فلسطینی علاقوں پر بھی اپنا قبضہ برقرار رکھنے پر اصرار کرتا آیا ہے جو اس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضے میں لیے تھے۔ تاہم فلسطینی ان علاقوں کو اپنی مجوزہ ریاست میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔