اسرائیل میں گذشتہ ہفتے قومی انتخابات میں دونوں بڑی جماعتیں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہیں اور یوں ملک شدید مشکل صورت حال سے دوچار ہو گیا۔ تاہم اسرائیل کے صدر نے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ حکومت بنانے کی کوششوں کا آغاز کریں۔
اسرائیل کے صدر ریوین ریولن نے یہ بات بدھ کے روز نتن یاہو اور اُن کے حریف بینی گانز سے ملاقات کے بعد کی ہے۔
انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان بدھ کے روز کیا گیا، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی لیکُوڈ پارٹی نے 120 ارکان پر مشتمل ایوان میں 32 نشستیں حاصل کی ہیں جو اُن کے حریف بینی گانز کی جماعت بلیو اینڈ وائٹ پارٹی سے ایک سیٹ کم ہے۔ دیگر اتحادیوں کی حمایت کے ساتھ بھی دونوں میں سے کوئی جماعت حکومت سازی کے لئے مطلوبہ 61 سیٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر پائی۔
وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کا صدر سے کہنا تھا کہ آپ نے مجھے جو مشن سونپا ہے وہ میں قبول کرتا ہوں۔ میں یہ کام کر رہا ہوں باوجودیکہ میں نہیں جانتا کہ میں حکومت بنا پاؤں گا یا نہیں۔ تاہم میری پارٹی پوزیشن گانز سے قدرے کم ہے۔ کیونکہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی اس وقت تک حکومت نہیں بنا سکتا، جب تک ہم دونوں مل کر ایسا نہ کریں۔ اس وقت مصلحت کا تقاضا ایک اتحادی حکومت کا قیام ہے جو وسیع پیمانے پر اتحاد کے ذریعے قائم ہو اور ایسا جلد ہونا چاہیئے۔
جیوش کمیونیٹی کی ایک ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ریولن مخلوط حکومت سازی کے ماڈل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
صدر ریولن نے اس سے پہلے سیاست دانوں کے درمیان اس توقع پر دو ملاقاتیں کرائیں کہ نیتن یاہو اور گانز کے درمیان اتحاد سے ایک مخلوط حکومت قائم کی جا سکے۔ یہ بات چیت کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی کیونکہ دونوں لیڈر اس پر اتفاق نہیں کر پائے کہ نئی مخلوط حکومت کا سربراہ کون ہو گا۔ گانز کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم نتن یاہو کے قانونی مسائل کی وجہ سے ان کی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔
نتن یاہو کو متعدد سکینڈلز کا سامنا ہے اور اٹارنی جنرل نے اُن پر فراڈ، رشوت اور اعتماد کو دھوکہ دینے کے الزامات عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ تاہم وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔
اگر نیتن یاہو چھ ہفتوں کے اندر حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہو پائے تو صدر ریولن کسی اور امیدوار کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
دوسری کوشش میں بھی ناکامی کی صورت میں پارلیمان کی اکثریت کسی تیسرے شخص کو وزیر اعظم نامزد کر سکتی ہے۔
تاہم اگر یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو اسرائیل میں ایک سال کے اندر تیسری بار انتخابات منعقد ہو سکتے ہیں۔