حماس نے متنبہ کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے اسرائیل میں انضمام کا منصوبہ ایک طرح کا اعلان جنگ ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک نئی جنگ شروع کر کے حماس کو ایک بھاری قیمت بھی چکانا پڑ سکتی ہے۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران غزہ کی پٹی پر امریکی صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت اسرائیل مغربی کنارے پر تعمیر شدہ اپنی بستیوں کو اسرائیل کی حدود میں شامل کر لے گا اور ساتھ وادی اردن کو بھی شامل کر لے گا۔
یہ فلسطینیوں کا وہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کر لیا تھا اور یہ غزہ سے صرف 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
توقع ہے کہ اسرائیل کی حکومت ٹرمپ منصوبے پر عمل درآمد کے بارے میں یکم جولائی کے بعد فیصلہ کرے گی۔ اس وقت کے دوران حماس کو اس منصوبے کے خلاف اپنی حکمت عملی طے کرنا ہے۔
فلسطینی تجزیہ کار عدنان ابو امر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حماس کے سامنے پیچیدہ آپشن ہے، کیوںکہ انضمام کے خلاف ہر طرح کے ردعمل کا اثر غزہ کی پٹی پر پڑے گا۔
2018 میں فائر بندی کے سمجھوتے کے بعد بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔
غزہ میں قائم الاظہر یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر مخائمر ابو سعدا کہتے ہیں کہ سرحد پر کشیدگی جاری رہے گی اور دونوں جانب سے دھماکہ خیز بارود کا تبادلہ ہوتا رہے گا۔
پروفیسر سعدا کے مطابق اس بات کا امکان نہیں کہ حماس اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائیوں کو روک دے، جب کہ حماس کی حکومت جس علاقے پر قائم ہے اس کی اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی ہے اور پورا علاقہ معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔
پروفیسر سعدا کا مزید کہنا ہے کہ صورت حال ایسی بن گئی ہے کہ نہ حماس دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کر سکتی ہے اور نہ وہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہے۔
جمعہ کے روز اسرائیل نے جواب میں غزہ میں حماس کے فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ اس سے قبل حماس نے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ فائر کے تھے۔
ایک دن قبل حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا تھا کہ انضمام کا فیصلہ ایک طرح سے ہمارے عوام کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور اس سے علاقے میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو اسرائیل کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ حماس غزہ میں دوسرے دھڑوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے کہ کس طرح احتجاج کو مربوط طریقے سے جاری رکھ سکتا ہے۔
تجزیہ کار ابو امر کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل انضمام کا فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کرتا ہے تو حماس دوسرے دھڑوں کو راضی کرے گی کہ وہ اسرائیل پر راکٹ حملے کریں اور سرحدی جھڑپوں میں شدت پیدا کریں۔ ان کا تجزیہ ہے کہ حماس غزہ کی پٹی کی بجائے مغربی کنارے سے اسرائیل پر حملوں کو ترجیح دے گا، تاکہ غزہ کی پٹی بچی رہے۔
اس حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے حماس کو مغربی کنارے پر قائم فلسطینی اتھارٹی کے لیڈر محمود عباس سے بات کرنا ہو گی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ابو امر کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا امکان بہت کم بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔