|
اکتوبر 2023 سے اسرائیل حماس جنگ کی شروعات سے صدر بائیڈن اس کے خطے میں پھیلنے کے بارے میں اسرائیل کو انتباہ کرتے آئے ہیں۔ بہت سے مبصرین کو خدشات ہیں کہ وہ لمحہ آ چکا ہے۔
گزشتہ دس دنوں میں اسرائیل نے لبنان میں فضائی بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور بقول اس کے اس نے حزب اللہ کے 36 سو ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے تہران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے 180 میزائلوں کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
دمشق میں شامی سرکاری میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری سے تین شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
صدر بائیڈن نے بدھ کے روز رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ اسرائیل کو مشورہ دے رہی ہے کہ وہ ایران کو برابری کی سطح پر جواب دے۔
بائیڈن نے بدھ کو رپورٹرز کے اس سوال پر کہ آیا ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے جواب کی صورت میں وہ ایرانی تنصیبات پر کسی حملے کی حمایت کرتے ہیں، کہا ہے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔
بائیڈن کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے موقع پر آیا جب جی سیون ممالک کے سربراہان نے بدھ کے روز ایک فون کال کے دوران ایران پر مزید پابندیوں کے بارے میں غور کیا۔
ان رہنماؤں نے اپنے بیان میں اسرائیل اور اس کے عوام کے ساتھ امریکہ کی حمایت اور یک جہتی کو دہرایا۔
امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے کے خدشات
واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ کشیدگی کے بڑھنے سے امریکہ کو جنگ میں مداخلت کرنی پڑ سکتی ہے۔ خصوصاً اگر ایران اسرائیل کو جوابی وار میں امریکہ کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
امریکہ کے کارنیگی انڈومینٹ فار انٹرنیشنل پیس سے تعلق رکھنے والے ایرون ڈیوڈ ملر کا کہنا ہے کہ ان مفادات میں سعودی عرب میں تیل کی پیداوار کرنے والی تنصیبات کو نشانہ بنانا بھی ہو سکتا ہے اور عراق اور شام میں جنگجو گروہوں کو وسائل فراہم کرنا بھی ہے، تاکہ وہ امریکی افواج پر حملے تیز کر دیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسی صورت میں امریکہ کو جنگ میں براہ راست شامل ہونے کا راستہ فراہم ہو سکتا ہے۔
خطے میں ایک بڑی عسکری موجودگی کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں بالواسطہ شریک ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں امریکہ کے دو یو ایس نیوی ڈسٹروئیر جہاز تعینات ہیں۔ ان کے نام یو ایس ایس بلکیلی اور یو ایس ایس کول ہیں۔
پنٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر کے مطابق امریکہ نے اسرائیلی ائیر ڈیفینس یونٹس کے ساتھ مل کر منگل کی شام ایرانی میزائلوں کے خلاف ایک درجن انٹرسیپٹر فائیر کئے تھے۔
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی نے مشرق وسطی میں جنگ کی امریکہ اور یورپی ممالک پر ذمہ داری ڈالی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر یہ اس علاقے سے اپنی موجودگی ختم کر دیں تو یہ تنازع، جنگیں اور جھڑپیں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔
وائٹ ہاؤس نے خامنائی کے تبصرے پر ردعمل کی وائس آف امریکہ کی درخواست کا جواب ابھی تک نہیں دیا۔
مبصرین کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بائیڈن ایران پر براہ راست حملہ کریں گے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود واشنگٹن اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئیر فیلو برائین کاٹلیس کا کہنا ہے کہ اس تنازع کے اہم کھلاڑی اسرائیل، حماس، حزب اللہ اور ایران ہیں، جب کہ حوثی باغی بھی ان میں شامل ہیں۔
کاٹلیس کے بقول واشنگٹن ابھی تک تنازع کا باہر سے مشاہدہ کر رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ اسے پھیلنے سے روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں انتظامیہ کی حکمت عملی زیادہ تر ردعمل پر انحصار کرتی رہی ہے۔
بائیڈن نے ابھی تک اسرائیل کو دی جانے والی عسکری امداد پر کوئی بھی شرط عائد کرنے سے انکار کیا ہے، جو ان کے پاس سیزفائیر پر اسرائیل کو آمادہ کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وہ اور انتظامیہ میں شامل دیگر افراد اسرائیل کے بارے میں اپنی حمایت کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔
ملر کا کہنا ہے کہ یہ بات اب سوچی بھی نہیں جا سکتی کہ بائیڈن اسرائیل کو دی جانے والی امداد پر کوئی شرط عائد کریں گے۔ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب امریکہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے دباؤ کا اثر بھی شاید نہ ہو۔
اسرائیل کی ایک برس سے جاری جارحیت کی وجہ سے حزب اللہ کی تنظیمی قوت میں کمی آئی ہے جب کہ حماس اتنی منظم نہیں رہی ہے۔
ملر کے بقول اسرائیل ان جنگی کامیابیوں کو جاری رکھنا چاہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ ان جنگی کامیابیوں کو سیاسی معاہدوں میں ڈھال سکے۔
وہ کہتے ہیں اسرائیل کی حماس، حزب اللہ اور ایران کے ساتھ کشیدگی شاید مستقبل میں بھیجاری رہے۔
فورم