رسائی کے لنکس

حائفہ: جہاں عرب اور اسرائیلیوں کے درمیان بھائی چارہ ہے


بہائی عبادت گاہ کا 18 اگست 2008 کو شمالی شہر حائفہ میں ایک م نظر۔ فوٹو رائٹرز
بہائی عبادت گاہ کا 18 اگست 2008 کو شمالی شہر حائفہ میں ایک م نظر۔ فوٹو رائٹرز

سات اکتوبر کو اسرائیل پرحماس کے حملے اور اس کے بعد کی فوجی کارروائی نے، عشروں سے کشیدگی کے شکار اسرائیلی معاشرے میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ لیکن کچھ خاندان اب بھی اپنے اس یقین پر قائم ہیں کہ عرب اور یہودی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شخص گائے الحانان ہیں جو حائفہ میں رہتے ہیں اور ان کا اس بات پر گہرا یقین ہے کہ ایک ساتھ رہنے کا طریقہ سیکھنا، شروع ہوتا ہے اسکول سے ۔کیا یہ ایک فرد کی انفرادی سوچ ہے یا یہ سوچ ایک اجتماعی رویے کی عکاس ہے؟

بندر گاہ والا شہر حائفہ

حائفہ خود اسرائیل کا ایک منفرد شہر ہے۔ یہ ان نایاب جگہوں میں سے ایک ہے جہاں نسلی تنوع پایا جاتا ہے۔ جہاں ایسے جوڑے رہتے ہیں، جو مختلف نسلی گروہوں یا مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔جہاں یہودی اور مسلمان، اسرئیلی اور عرب ایک برادری کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔

اس کے تنوع کی ایک مثال حائفہ میں واقع بہائی عبادت گاہ ہے۔ سونے کا پانی چڑھا ہوا اس کا گنبد ،پر سکون ماحول اور چھت والے باغات کا حامل حائفہ بحیرہ روم کے کنارے واقع یکک مصروف بندر گاہ ہے ۔

بہائیوں کا خیال ہے کہ تمام عظیم مذاہب ایک ہی الہی مقصد کی نشانیاں ہیں۔ وہ عالمی امن کے حامی ہیں، لیکن ان کے مقدس ترین مقامات اور مرکز مشرق وسطیٰ کے اس سیاسی گڑھ کے مرکز میں ہیں جو بعد میں اسرائیل بنا۔

حائفہ کی بندرگاہ کا ایک منظر۔ فوٹو رائٹرز
حائفہ کی بندرگاہ کا ایک منظر۔ فوٹو رائٹرز

اس شعور کے استحکام کا ایک ثبوت یہ ہے کہ موجودہ کشیدگی کے زمانے میں بھی وہاں باہمی رواداری کی فضا موجود ہے۔ یہ ماحول غزہ کی حالیہ جنگ سمیت اہم مسائل پر بات چیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

حائفہ کے ایک شہری کی کہانی

گائے الہانان ایک اسرائیلی شہری ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو ایک ایسےمنفرد اسکول میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا ، جہاں یہودی اور مسلمان طلباء ایک ساتھ پڑھتے لکھتے ہیں۔

گائے اپنے بیٹے کی تصویر دکھا رہے ہیں۔
گائے اپنے بیٹے کی تصویر دکھا رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں بہت سے فائدے ہیں، اور بقول ان کے،’’ اگر مجھےان میں سے کسی ایک فائدے کوچننا پڑے تو وہ یہ ہے کہ ان (بچوں )میں اسرائیلی یہودی شناخت کے اس اہم جزو کی کمی ہے، جو دوسروں کا خوف ہے۔‘‘

گائے کا کہنا ہے کہ وہ تنازعات میں الجھے ہوئےہوا ایک ایسے اسرائیلی معاشرے کے خلاف لڑ رہے ہیں جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ جوایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں صرف تقسیم، دوری اور تصادم ہے۔

نسلوں کے دوران۔ یہودی ، عرب اور مسلمان ثقافتیں ایک ساتھ پروان چڑھی ہیں، اور گائے کا کہنا ہے کہ ۔ ان کی بقا ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔"

دو مذہب دو دوست
دو مذہب دو دوست

اسی لیے الحانان گائے چاہتے تھے کہ ان کے بچے دوسرے مسلمان طلبہ کے ساتھ اسکول جائیں – جن میں اسرائیلی اور عرب طالب علم ہیں جو ان فلسطینیوں کے بچے ہیں جو 1948 میں اسرائیل کے آزاد ہونے کے بعد اسرائیل میں ضم ہو گئے تھے۔

اسرائیل میں عرب نسل سے تعلق رکھنے والے افراد ، آبادی کا تقریباً 18 فیصد ہیں۔اور گائے کے بیٹے کے بہترین دوست بھی اسی اقلیتی آبادی کا حصہ ہیں۔

الحانان اپنے بیٹے کے دوستوں کے بارے میں بہت پیار سے بات کرتے ہیں،’’میں کہوں گاآدم یا لیام۔ دونوں ہی بہت پیارے، بہت کمال کے بچے ہیں۔ دونوں زبردست فٹ بال کھیلتے ہیں ان دونوں کی مائیں یہودی اور باپ فلسطینی ہیں ۔"

یہ بچے ایک ساتھ اسکول جاتے ہیں۔
یہ بچے ایک ساتھ اسکول جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ،""بہت پھلتی پھولتی نسلیں اور یہودی ، عربی اور مسلمان ثقافت میں ایک ساتھ پروان چڑھیں ۔ ان کا وجود ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ۔

حیفہ اسرائیل کا ایک منفرد شہر ہے۔ یہ ان نایاب جگہوں میں سے ہے جہاں مخلوط جوڑے رہتے ہیں، جہاں یہودی اور مسلماں برادری دونوں اکٹھے رہتے ہیں، باہمی رواداری کی فضا کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ماحول غزہ کی حالیہ جنگ سمیت اہم مسائل پر مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اور حال ہی میں یہ احساس حائفہ میں اس وقت نظر آیا جب ، جب مختلف مذاہب اور نسلوں کے لوگ ایک شام اکٹھے گزارنے کے لئے جمع ہوئے ، اور ملک کے باقی حصوں کو امن اور بقائے باہمی کا پیغام دیا ۔

محمد شریف اودے،نے جن کا تعلق احمدیہ فرقے سے ہے کہا کہ میں اپنے تمام پڑوسیوں کو دعوت دیتا ہوں جو ہم سے خوفزدہ ہیں - مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیوں خوفزدہ ہیں -

انہوں نے کہا کہ میں انہیں بتاننا چاہتا ہوں کہ ہم یہاں اسرائیل سے پہلے اور اسرائیل کے بعد پرامن طریقے سے رہ رہے ہیں۔ اور ہم پڑوس میں مل جل کر بقائے باہمی کے ساتھ رہتے ہیں۔

اس وقت، غزہ کی جنگ نے اسرائیل میں شدیدتفریق پیدا کر دی ہے جس کا غزہ سے باہر پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن حائفہ میں جہاں اسرائیلی اور مسلمان اکٹھے رہتے ہیں، ایسے لوگ ہیں جو اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تنازعات کا حل، اور پائیدار امن کا حصول ممکن ہے۔

وی اے او کے Pilar Cebrián کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG