امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے منگل کے روز کہا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ وہ آئندہ دو ہفتوں کے دوران پھر ملاقات کریں گے، اور اُنھیں توقع ہے کہ وہ نو ماہ کے اندر اندر طے پانے والے حتمی امن معاہدے پر مہر ثبت کریں گے۔
کیری نے یہ بات اسرائیلی وزیرِ انصاف، زِپی لیونی اور فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ہفتے کی بات چیت ’مثبت اور تعمیری‘ تھی اور وہ مطمئن ہیں کہ دونوں فریق امن حاصل کرلیں گے۔
آج صبح وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما اور محکمہٴخارجہ میں بات چیت کے بعد، کیری نے کہا کہ فریقین انتہائی متنازعہ فی معاملات پر گفتگو کرنے پر تیار ہوگئے ہیں، مثلاً سرحدیں، پناہ گزیں اور یروشلم کا مستقبل۔
اس سے قبل کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تقریباً تین سال بعد براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔ پیر کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دونوں ملکوں کے مذاکرات کاروں کے لیے افطار کا بندوبست کیا۔
اسرائیل کی طرف سے وزیر انصاف تسیبی لیونی اور فلسطینی وفد کی سربراہی صائب عریقات کر رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی رہائی، یروشلیم اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملات پر اختلافات کے باعث ستمبر 2010ء میں براہ راست بات چیت کا عمل معطل ہو گیا تھا۔
امریکہ مذاکراتی عمل کی بحالی پر زور دیتا رہا ہے اور بات چیت کے موجودہ دور کا آغاز بھی اسی کی کوششوں سے ممکن ہوپایا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے مذاکرات کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’اُمید افزا‘‘ پش رفت قرار دیا۔ لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ضمن میں سخت فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔
’’مذاکرات میں سب سے مشکل کام ابھی آگے آنا ہے اور میں پرامید ہوں اسرائیل اور فلسطین دونوں اس میں خلوص نیت کے ساتھ حصہ لیں گے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ملکوں کو ’’امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کے مقصد کے حصول کے لیے‘‘ اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
جان کیری نے امریکی وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے چھ دورے کیے اور اس دوران وہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل انھوں نے اسرائیل میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر مارٹن انڈک کو بات چیت کے لیے خصوصی امریکی مندوب مقرر کیا۔ وہ 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرچکے ہیں۔
اس موقع پر جان کیری کا کہنا تھا کہ ’’مشکل، پیچیدہ، جذباتی اور دیگر معاملات کے حل کے لیے معقول سمجھوتوں‘‘ کے لیے مذاکرات کاروں اور رہنماؤں کو بہت مشکل مرحلے درپیش ہوں گے۔
منگل کو مذاکراتی دور کے اختتام پر امریکی وزیرخارجہ اسرائیل اور فلسطینی نمائندوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس بھی کریں گے۔
اسرائیل نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک سو سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی بھی منظوری دی تھی۔
کیری نے یہ بات اسرائیلی وزیرِ انصاف، زِپی لیونی اور فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ہفتے کی بات چیت ’مثبت اور تعمیری‘ تھی اور وہ مطمئن ہیں کہ دونوں فریق امن حاصل کرلیں گے۔
آج صبح وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما اور محکمہٴخارجہ میں بات چیت کے بعد، کیری نے کہا کہ فریقین انتہائی متنازعہ فی معاملات پر گفتگو کرنے پر تیار ہوگئے ہیں، مثلاً سرحدیں، پناہ گزیں اور یروشلم کا مستقبل۔
اس سے قبل کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تقریباً تین سال بعد براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے۔ پیر کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دونوں ملکوں کے مذاکرات کاروں کے لیے افطار کا بندوبست کیا۔
اسرائیل کی طرف سے وزیر انصاف تسیبی لیونی اور فلسطینی وفد کی سربراہی صائب عریقات کر رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی رہائی، یروشلیم اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملات پر اختلافات کے باعث ستمبر 2010ء میں براہ راست بات چیت کا عمل معطل ہو گیا تھا۔
امریکہ مذاکراتی عمل کی بحالی پر زور دیتا رہا ہے اور بات چیت کے موجودہ دور کا آغاز بھی اسی کی کوششوں سے ممکن ہوپایا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے مذاکرات کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’اُمید افزا‘‘ پش رفت قرار دیا۔ لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ضمن میں سخت فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔
’’مذاکرات میں سب سے مشکل کام ابھی آگے آنا ہے اور میں پرامید ہوں اسرائیل اور فلسطین دونوں اس میں خلوص نیت کے ساتھ حصہ لیں گے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ امریکہ دونوں ملکوں کو ’’امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کے مقصد کے حصول کے لیے‘‘ اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
جان کیری نے امریکی وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے چھ دورے کیے اور اس دوران وہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے۔
مذاکرات کے آغاز سے قبل انھوں نے اسرائیل میں تعینات رہنے والے امریکی سفیر مارٹن انڈک کو بات چیت کے لیے خصوصی امریکی مندوب مقرر کیا۔ وہ 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ امن مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرچکے ہیں۔
اس موقع پر جان کیری کا کہنا تھا کہ ’’مشکل، پیچیدہ، جذباتی اور دیگر معاملات کے حل کے لیے معقول سمجھوتوں‘‘ کے لیے مذاکرات کاروں اور رہنماؤں کو بہت مشکل مرحلے درپیش ہوں گے۔
منگل کو مذاکراتی دور کے اختتام پر امریکی وزیرخارجہ اسرائیل اور فلسطینی نمائندوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس بھی کریں گے۔
اسرائیل نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک سو سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی بھی منظوری دی تھی۔