اسرائیل میں پارلیمان نے ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت کرونا وائرس کی وجہ سے ہنگامی حالات میں مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پارلیمنٹ نے بدھ کو قانون منظور کرتے ہوئے مظاہروں پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ قانون 38 کے مقابلے میں 46 ووٹوں سے منظور کیا گیا ہے۔
یہ قانون پارلیمنٹ کی جانب سے ملک بھر میں وائرس کی دوسری لہر کو روکنے کے سلسلے میں کیے گئے اقدامات کا حصہ بتایا جا رہا ہے۔
قانون کے مسودے پر بحث کے دوران پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی بھی کرنا پڑی۔ کیوں کہ حکومت قانون کی منظوری کے لیے مطلوبہ ووٹ پورے کرنے میں مشکلات کا شکار تھی۔ اس دوران منگل کو ایوان کے باہر مظاہرے بھی جاری رہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں کو روکنے کی کوشش ہے۔
ملک میں 18 ستمبر سے ایک بار پھر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر کاروباری مراکز، دفاتر، عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے اور ثقافتی مقامات بند ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں پر سوائے ضروری وجوہات کے گھر سے ایک کلو میٹر سے زائد سفر کرنے پر بھی پابندی عائد ہے۔
اس قانون کے تحت حکومت کو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نافذ ایمرجنسی کے دوران مزید اختیارات مل گئے ہیں۔
نئے قانون کے تحت حکومت ہر ہفتے ایمرجنسی کا دورانیہ بڑھا سکتی ہے۔
ایک کلو میٹر سے زیادہ سفر نہ کرنے کی پابندی مظاہرین پر بھی عائد ہو گی۔ مظاہرین کی تعداد پر بھی قدغنیں لگائی گئی ہیں۔
اسرائیل میں کرونا وائرس سے دو لاکھ 37 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ جب کہ 1528 افراد وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے اسرائیل میں ہفتہ وار دنیا میں سب سے زیادہ کرونا کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
اسرائیل کی حزبِ اختلاف کے رہنما یائیر گولن نے کہا ہے کہ یہ نیا قانون مظاہرے روکنے میں ناکام رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں میں موجود غصہ خود بخود سڑکوں تک پہنچنے کی راہ ڈھونڈ لے گا۔
حالیہ مہینوں میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے گھر کے باہر ہفتہ وار مظاہرے ہوتے رہے ہیں جن میں ان سے وبا کے دوران کارکردگی اور بدعنوانی کے الزامات پر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔