رسائی کے لنکس

اسرائیلی رپورٹ: اقوامِ متحدہ کے جنگی جرائم کے الزامات مسترد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

غزہ کی جنگ میں حماس کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 1400فلسطینی ہلاک ہوئے۔ اِن میں عسکریت پسند اور شہری دونوں شامل تھے۔ تیرہ اسرائیلی بھی اِس لڑائی میں مارے گئے تھے

اسرائیل نے 46صفحات پر مبنی سرکاری ردِ عمل پیش کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی گولڈ سٹون رپورٹ کومسترد کیاہے، جِس میں ایک برس قبل غزہ کی لڑائی میں یہودی ریاست کو جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام دیا گیا تھا۔

اسرائیل نے اِس سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس کے زیرِ اقتدار غزہ کی پٹی سے فلسطینی راکٹ حملوں کے جواب میں یہ جنگ خود دفاعی کی ایک جائز کارروائی تھی۔

اسرائیل نے کہا کہ فوج نے شہری ہلاکتوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی حالانکہ حماس نے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

غزہ کی جنگ میں حماس کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 1400فلسطینی ہلاک ہوئے۔ اِن میں عسکریت پسند اور شہری دونوں شامل تھے۔ تیرہ اسرائیلی بھی اِس لڑائی میں مارے گئے تھے۔

گولڈ سٹون رپورٹ میں غزہ کی پٹی میں ہونے والی لڑائی کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں کو بھی جنگی جرائم کے ارتکاب پر موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس الزام کو حماس مسترد کرتا ہے۔

اقوامِ متحددہ کو پیش کیے جانے والے تحریری جواب میں اسرائیل نے رپورٹ کے ایک کلیدی مطالبے کو نظرانداز کیا ہے جس کے تحت جنگ کے دوران فوجی کارروائیوں کی چھان بین کے لیے ایک غیرجانبدار کمیشن قائم کرنے کو کہا گیا تھا۔

اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنا قصور کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور آئندہ جنگوں میں خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کے برابر ہے۔

اسرائیلی تجزیہ کار جیرالڈ سٹائن برگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اِس ‘کینگرو کورٹ’ کے ساتھ تعاون کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اگر گولڈ سٹون رپورٹ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ متعدد جھوٹے دعووٴں کی بنیاد پر گھڑی جانے والی رپورٹ معلوم ہوتی ہے۔ اِن دعووں کو حوالوں سے الگ کرکے رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اِس لیے میرے خیال میں بہترین حل یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کو اِس رپورٹ کو جھوٹ کے پلندے کے طور پر سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اِس لیے اسرائیل گولڈ سٹون کمیشن سے تعاون کرنے سے انکار کرتا ہے۔

لیکن اسرائیلی تجزیہ کار ہرش گُڈمین نے کہا ہے کہ اِس کی وجہ سے فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہے۔

گڈمین کہتے ہیں کہ گولڈسٹون رپورٹ غیرمنصفانہ ہے۔ اسرائیل انکوائری کمیشن کی تشکیل کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے ساتھ اختلاف کو ختم کر سکتا ہے۔

اُن کے بقول، اپنا دفاع کرنا اہم ہے اور دنیا پر یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا جسے چھاحنے کی ضرورت ہو۔

اسرائیل کے پاس انکوائری کمیشن کی تکشیل کے بارے میں جواب دینے کے لیے پانچ فروری تک کا وقت ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اقوإمِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اِس معاملے پر مزید کارروائی کے لیے اِسے سلامتی کونسل میں پیش کرسکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG