اسرائیل نے بین الاقوامی برادری کے احتجاج کے باوجود مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ایک نئی یہودی بستی کی تعمیر شروع کردی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کو ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نئی بستی کی تعمیر شروع ہونے کا اعلان کیا۔
وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اپنے ٹوئٹ میں ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جس میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ایک بلڈوزر اور کھدائی کرنے والی مشین کو کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنے ٹوئٹ میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے لکھا ہے کہ انہوں نے امونا کے علاقے کے آباد کاروں کے لیے جو نئی بستی بسانے کا وعدہ کیا تھا اس پر ابتدائی کام شروع ہوگیا ہے۔
امونا کے مقام پر آباد لگ بھگ 40 یہودی آباد کار گھرانوں کو رواں سال فروری میں ایک عدالتی حکم پر علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔
اسرائیل کی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ان آباد کاروں کے گھر فلسطینیوں کی ذاتی زمینوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
عدالتی فیصلے سے بے دخل ہونے والے آبادکاروں کے لیے اسرائیلی حکومت نے نئی بستی تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر منگل کو مغربی کنارے کے شمالی علاقے میں کام شروع ہوا۔
گزشتہ 25 برسوں کے دوران مغربی کنارے میں تعمیر کی جانے والی یہ پہلی نئی یہودی بستی ہے۔ اس سے قبل تک اسرائیلی حکومت پہلے سے موجود بستیوں کی بڑے پیمانے پر توسیع میں مصروف رہی ہے۔
اپنے ٹوئٹس میں اسرائیلی وزیرِاعظم نے مزید کہا کہ انہیں فخر ہے کہ کئی دہائیوں بعد انہیں ایسا اسرائیلی وزیرِاعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے جس نے ارضِ مقدس میں نئی بستیوں کی تعمیر شروع کی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اس بستی کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی جیسن گرین بیلٹ اسرائیلی اور فلسطینی حکام سے بات چیت کے لیے اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ کوشنر بھی بدھ کو جیسن گرین بیلٹ کی معاونت کے لیے خطے کا دورہ کریں گے جہاں دونوں اعلیٰ امریکی عہدیدار اسرائیلی اور فلسطینی حکام کو امن مذاکرات بحال کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے جو 2014ء سے تعطل کا شکار ہیں۔
عالمی برادری مغربی کنارے میں آباد یہودی بستیوں اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی سمجھتی ہے اور خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی آئی ہے۔