رسائی کے لنکس

اسرائیل غزہ میں امن چاہتا ہے، اس کی تعمیرنو میں مالی تعاون کا فیصلہ نہیں کیا: وزیر اقتصادیات برکات


 اسرائیلی وزیر اقتصادیات ، نیر برکات، فائل فوٹو
اسرائیلی وزیر اقتصادیات ، نیر برکات، فائل فوٹو
  • اسرائیل ۔ حماس جنگ بندی پندرہ ماہ کی اس جنگ کے بعد جس نے غزہ کو بڑے پیمانے پر کھنڈر بنا دیا ہے ، اتوار کو نافذ ہو گئی ہے ۔
  • اسرائیل غزہ میں امن چاہتا ہے لیکن ا س کی تعمیر نو کےلیے فنڈز دینے کا فیصلہ نہیں کیا: اسرائیلی وزیر اقتصادیات
  • اسرائیل عرب ممالک اور دوسروں کو غزہ میں ایسی تعمیر نو کی اجازت دے گا جس سے اسرائیل کو خطرہ نہ ہو۔
  • ترکیہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی: برکات ۔
  • ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے سے اسرائیل کے لیے حالات بہتر ہو گئے ہیں: برکات

اسرائیل کے وزیر اقتصادیات نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل ایک پرامن غزہ چاہتا ہے لیکن اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہےکہ آیا اس کی تعمیر نو کے فنڈز میں مدد کی جائے ۔لیکن وہ حماس کی حکومت میں تعمیر نو کی اجازت نہیں دے گا جس کے نتیجے میں بقول ان کے سرحد پار سے ایک اور عسکریت پسند حملہ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کےدرمیان پندرہ ماہ کی جنگ کے بعد ،جس نے غزہ کی پٹی کو منہدم کیا اور مشرق وسطیٰ میں آگ بھڑکائی تھی ، اتوار کو جنگ بندی پر عمل شروع گیا۔

وزیر اقتصادیات نیر برکات نے ڈیوس ، سوئٹزر لینڈ میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کے دوران رائٹرز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ کی تعمیر نو اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک حماس یہ فیصلہ نہیں کر لیتا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ پائیدار امن چاہتا ہے۔

انہوں نے تجارت کے عالمی گڑھ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی اور 2007 سے فلسطینی اسلام پسند عسکریت پسند حکومت کےزیر انتظام غزہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ اہم سوال یہ ہے کہ آیا ۔۔۔ وہ ایک دبئی بنانا چاہتے ہیں یا غزہ کی تعمیرنو اسی طرح کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ تھا۔ ‘‘

اسرائیل کے وزیر اقتصادیات ، فائل فوٹو
اسرائیل کے وزیر اقتصادیات ، فائل فوٹو

یروشلم کے سابق مئیر برکات نے کہا ،’ دبئی نے اسرائیل کی ریاست کوتسلیم کیا ہے ، وہ باہمی اقتصادیات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔۔ ہم اپنے خطے میں دبئی ایک دیکھنا چاہیں گے ، غزہ نہیں ۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس سے قبل عہد کیا تھا وہ اس وقت تک جنگ نہیں روکیں گے جب تک حماس کوختم نہیں کر لیتے کیوں کہ ان کے بقول اس کے بغیر اسرائیل کے لیے پائیدار امن اور سلامتی ممکن نہیں ہو گی۔

غزہ کے لیے متوقع اہم عطیہ دہندگان نے، جن میں متحدہ عرب امارات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ شامل ہیں، زور دے کر کہا ہے کہ حماس، جس نے اسرائیل کی تباہی کی قسم کھائی ہے ، اور جسے بہت سے ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ، جنگ کے بعد غزہ میں بر سر اقتدار نہیں رہ سکتا۔

لیکن اب جب جنگ بندی ہو گئی ہے، غزہ میں حماس کے زیر اتنظام انتظامیہ ایک بار پھر منظر عام پر آگئی ہے اور اس نے اس بات کی نشاندہی کے لیے کہ وہ عوامی امور کی بدستور نگران ہے ، سیکیورٹی کو دوبارہ نافذ کرنے اور بنیادی سہولیات کی بحالی شروع کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔

برکات نے کہا کہ اسرائیل نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہاں تعمیر نو کے لیے مالی طور تعاون کیا جائے ، لیکن وہ یقینی طور پر متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور دوسروں کو یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تیار ہو گا کہ وہ وہاں ایسی تعمیر نو کریں جس سے اسرائیل کو خطرہ لاحق نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اب جب ٹرمپ ڈیمو کریٹک صدر جو بائیڈن کی جگہ وائٹ ہاؤس میں واپس آئے ہیں اسرائیل کے لیے جنگ کے حالات بہتری کی جانب تبدیل ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’ ہم ایک ایسی مدد گار انتظامیہ سے، جو ہمیں روکتی تھی، ایک ایسی انتظامیہ کی طرف بڑھے ہیں جو ہمیں جنگ جیتنےکی طرف بڑھنے میں بھر پورمدد دے رہی ہے ۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اس نئی تبدیلی کو پورےمشرق وسطیٰ میں بھی محسوس کیا جائے گا ،جس سے اسرائیل اور مزید عرب ملکوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات قائم ہونے کے امکانات بڑھیں گے ،یہ ایک ایسا عمل ہے جو ابراہام معاہدوں کے طور پر جانا جاتا ہے ۔

ٹرمپ کی 2017 سے 2021 تک کی پہلی انتظامیہ کی ثالثی میں ہونے والے اس معاہدے سے اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے تعلقات معمول پر آئے ۔

اسرائیل کی جانب سے جنگ میں غزہ کی تباہی نے ان تعلقات کو پرکھا ہے ، لیکن برکات نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے ، ابراہام معاہدوں کو سعودیوں اور دوسروں تک پھیلانے کے امکانات میں اضافہ ہو گا۔

جب ان سے ترکیہ کے ساتھ تجارتی رابطے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا جو اس نے گزشتہ سال غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے منقطع کر دیے تھے ، تو برکات نے کہاکہ ، ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔ ترکیہ نے منگل کو کہا تھا کہ اگر غزہ میں نیا سکون مستقل ثابت ہوا تو وہ تجارت دوبارہ شروع کر سکتا ہے ۔

برکات نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اسرائیل کے 2025 کے ٹیکسوں میں اضافے اور اخراجات میں کٹوتیوں پر مبنی کفایت شعاری کے بجٹ کے خلاف بھی بحث کی ہے جن کا مقصد بجٹ خسارے اور 2024 میں جنگ کے اخراجات کےلیے مختص اضافی 25 ارب ڈالر کے قرض کا بوجھ کو کم کرنا تھا۔

بجٹ ابھی پارلیمنٹ کی حتمی منظوری کا منتظر ہے لیکن برکات مزید فراخدلانہ اخراجات کا ایک ایسا پیکیج چاہتے ہیں جو قرضوں میں اضافے کے ساتھ جراتمندانہ اقتصادی ترقی پر مرکوز ہو ۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہماری اقتصادی افزائش اچھی ہوگی تو ہم بہت زیادہ قرض تیزی سے واپس کر سکیں گے۔

اسرائیل نے غزہ پر اس کے بعد اپنا حملہ شروع کیا تھا جب حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر 2023 کو سرحد پار سے اس پر اچانک دھاوا بولا، اور اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 1200 لوگوں کو ہلاک کر دیا اور وہ 250 کویرغمال بنا کر لے گئے۔

اس کے بعد سے غزہ میں حماس کے زیر انتظام صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں 46ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ کا بیشتر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے اوراس کے 23 لاکھ لوگوں میں سے بیشتر کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG