اسرائیل غزہ جانے والے بحری امدای قافلے پر اپنے کمانڈوز کے حملے کی خود تحقیقات کر رہا ہے ۔ جب کہ اس حملے پر، جس میں نو کارکن ہلاک ہوگئے تھے، بین الاقوامی تنقید کاسلسلہ جاری ہے ۔ اب اسرائیل کے اندر سے بھی یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا اب اسے اپنی یہ تین سالہ ناکہ بندی جاری رکھنی چاہیے ؟
ا گرچہ بین الاقوامی نکتہ چینی کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا لیکن اسرائیل کے راہنما ابھی تک غزہ کی ناکہ بندی جاری رکھنے کے بارے میں اپنے موقف پر قائم ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ اسرائیل کا موقف نہیں سمجھتے ۔
ایک بار پھر اسرائیل کو دوہرےپن اور عجلت میں کیے گئے تعصب پر مبنی فیصلے کا سامنا ہے ۔
اسرائیل شہری ضرورت کے ساز و سامان ، مثلاً سیمنٹ کے داخلے پر پابندی عائد کر چکا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ غزہ میں عسکریت پسند اس کا فوجی استعمال بھی کر سکتے ہیں جو یہودی ریاست کی تباہی چاہتے ہیں۔امریکہ ، یورپی یونین اور دوسرے ملک اسرائیل کی پالیسی پر نکتہ چینی کر چکے ہیں ۔
مسٹر نتن یاہو کے ایک سابق مشیر ڈوری گولڈ کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے ۔ ہمارے سامنے حماس کی ایک حکومت ہے جو اخوان المسلمون کے بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ ہے ۔ وہ کئی برس تک اسرائیل کے عام شہریوں پر راکٹ فائر کر چکی ہے۔ وہ ایران کی ایک اتحادی ہے جو ابھی تک اسرائیل کی تباہی کی اپیلیں کرتا ہے۔اور اس نے اپنے نظریے میں رتی بھر تبدیلی نہیں کی ہے ۔ تو پھر اسرائیل کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا اسےحماس پر بھروسہ کرنا چاہیے؟
31 مئی کے امدادی بحری قافلے کے واقعے سے بہت پہلے ، اسرائیل کے کچھ لوگوں نے ناکہ بندی پر نظر ثانی کے لیے اپیلیں کی تھیں ۔ ان میں سے ایک ، اسرائیلی فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر ،شلومو بروم تھے۔ وہ اسٹریٹیجک پلاننگ کے انچارج تھے ۔
انہوں نے کہا تھا کہ ناکہ بندی اس وقت سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے جب دوسرے فریق کے پاس نقصان کے لیے کچھ بچا ہو ۔ کیوں کہ پھر آپ اسے باز رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی پالیسیوں کے ذریعے ، حماس کو پیچھے دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں اور اس کے لیے ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں اس کے پاس نقصان کے لیے کچھ باقی نہ رہ گیا ہو تو اس سے ، الٹا آپ کا ہی نقصان ہی ہو گا۔
ماروی مارمارا ،اور ترک قیادت کے فلوٹیلا کے دوسرے بحری جہازوں پر لائی جانے والی امداد میں سے بیشتر اسرائیلی ٹرمینلز میں پر پڑی ہوئی ہے ۔ اور حماس اسے اندر لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
امدادی فلوٹیلا کے منتظمین کہتے ہیں کہ ان کا اصل مقصد صرف امداد کو غزہ تک پہنچانا ہی نہیں تھا بلکہ ناکہ بندی کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی تھا۔
فری غزہ موومنٹ کی گریٹا برلن کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے رضاکار حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہمارے لیے پیسہ حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھااور ہمارے لیے مزید کشتیاں لانا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سر گرم کارکن۔۔۔۔ا ور حماس ۔۔۔۔ نے پبلک ریلیشنزکی ایک کامیابی حاصل کی ہے
اسرائیل جیسے حالات کی کسی حکومت کے لیے دباؤ کے سامنے جھکنا بہت مشکل اور بہت تکلیف دہ ہے کیوں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ گویا اس نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور دوسرا فریق فتحیاب ہو گیا ہے ۔ اور اصل میں یہ ہی وجہ ہے کہ حماس نے پراپیگنڈے کے اپنے ذرائع پر فلوٹیلا کی اس کارروائی کو ایک بڑی فتح کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اور یہ کچھ اعتبار سے ایک بڑی کامیابی تھی بھی، یہ ٹی وی کے اسکرینوں پر ، پراپیگنڈے اور میڈیا کے دائرے میں ایک بڑی کامیابی تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔
اب جب کہ فلوٹیلا کے منتظمین ، جن میں ایران کے بھی کچھ منتظمین شامل ہیں، کشتیوں کی آمد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں ، جس سے مستقبل میں اسرائیل کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔